Putin Shikast Ke Dahane Par
پیوٹن شکست کے دہانے پر
رواں سال فروری میں یوکرائن اور روس کے درمیان چھڑنے والی جنگ ابھی تک جاری ہے اور کسی بھی نتیجے یا منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔ جب روس نے یوکرائن کو اپنے اندر ضم کرنے کی غرض سے ایک بھرپور حملہ کیا تو اہل تجزیہ کار اور جنگی ماہرین نے شاید یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ جنگ کیا رخ اختیار کرے گی اور کب تک چلے گی؟ ان ماہرین نے یہ بھی اندازہ نہیں لگایا کہ یوکرینی کس حد تک اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے لڑ سکتے ہیں۔
روسی ماہرین نے یوکرائن کی جانب سے اتنی زیادہ مزاحمت کا اندازہ نہیں لگایا ہوگا۔ خود پیوٹن کے قریبی دفاعی مشیروں نے ہفتوں میں یوکرائن کا محاصرہ کر کے ضم کرنے کا اعلان تو کر دیا لیکن یہ ان کا ادھورا خواب ہی رہا۔ یورپ اور امریکہ کی طرف سے زبردست حمایت اور مدد کا اندازہ بھی روسی ماہرین نہیں لگا سکے۔ شروع شروع میں تو ایسا لگتا تھا کہ ہفتوں ہی میں روس یوکرائن کی ناکہ بندی کر کے اس کو روسی خطہ ڈکلئیر کر دے گا لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
گو اس جنگ میں روس اور یوکرائنی افواج لڑ رہے ہیں لیکن پس پردہ امریکہ اور روس کی جنگ چل رہی ہے۔ بظاہر روسی ہتھیار اور یوکرائنی فوجی آمنے سامنے ہیں لیکن پس پردہ امریکی ہتھیار اور بھرپور حمایت روس کیلئے ایک چیلنچ ہے۔ یوکرائن کے دفاعی اثاثے تو بہت ہی تھوڑے تھے لیکن یورپ اور امریکہ کی جانب سے یوکرائن کو باہم امداد پہنچنا شروع ہوئی جس سے ہفتوں کی جنگ مہینوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو روس امریکہ اس بار ہی آمنے سامنے نہیں آئے بلکہ ماضی میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ افغانستان، عراق، شام، یمن اور دیگر کئی محاذ پر امریکہ اور روس ایک دوسرے سے زور آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اگر ہم ویت نام، افغانستان اور شام کی مثال لیں تو ہمیں ماننا ہوگا کہ امریکہ ان خطوں سے بری طرح پسپا ہوا۔
گو اس حقیقت کو امریکہ نواز میڈیا نہیں مانتا لیکن دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں واضح شکست ہوئی۔ امریکہ کے افغانستان میں اترنے سے پہلے بھی افغان طالبان کی حکومت تھی اور امریکہ خروج کے بعد بھی افغان طالبان ہی حکومتی عہدیدار ہیں۔ امریکی فورسز افغان طالبان سے معاہدہ کر کے ہی وہاں سے فرار ہوئے جس سے امریکی شکست واضح ہوگئی۔
امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ عشروں پر محیط ہے۔ اس سرد جنگ پر ہالی ووڈ کی کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں جن میں روس کو شکست سے دوچار دکھایا گیا ہے۔ سرد جنگ کی اس تاریخ سے روس نے کچھ خاص نہیں سیکھا۔ سنٹرل ایشیا کے قریباََ دس ممالک کا وجود اور سویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا روس کی بہت بڑی شکست تھی۔ اب یوکرائن میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں روسی افواج پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
امریکی اثر و رسوخ کی اس دوڑ میں روس چین سے بھی پیچھے ہے۔ امریکہ ایک طرف مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنا خاص اثر و رسوخ قائم کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف یورپ کے کئی ممالک نیٹو میں شمولیت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ نیٹو اتحاد ایک طرح سے امریکی آشیرباد ہے جس سے یہ اتحادی مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم میں نیوٹرل رہنے والے ممالک بھی نیٹو میں شمولیت اختیار کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس کے برعکس روس خطے کے دیگر ممالک کو اپنی طرف زیادہ مائل نہیں کر سکا جو ایک طرح سے اسکے خارجہ محاذ کی شکست ہے۔
حالیہ کشیدگی پر ایک سوال یہ ہے کہ روس یوکرائن تنازعہ ابھی تک حل کیوں نہیں ہو پایا؟ دونوں ملکوں کے درمیان جاری جنگ ابھی تک کیوں نہیں رک سکی؟ کیا بین الاقوامی امن فورسز اس تنازعے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں؟ کیا امریکہ نہیں چاہتا کہ امن قائم ہو سکے؟ کیا پیوٹن اپنی شکست تسلیم سے پریشان ہے؟ کیا یوکرائن سیز فائر اور امن معاہدہ نہیں کرنا چاہتا؟
جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگیں تین چار مہینوں تک ہی چلتی ہیں۔ جب جنگ کا دورانیہ بڑھتا ہے تو دونوں فریقین حل کی طرف پلٹتے ہیں۔ اور دوسری طرف جنگیں جلد ختم اس لیے نہیں ہوتی جب لیڈرز یہ سوچیں کہ شکست ان کے سیاسی کیرئیر کی موت ہوگی۔ جب لیڈرز کو اپنی اور اپنے دشمن کی صلاحیتوں اور طاقت کا ٹھیک اندازہ نہ ہو۔ جب لیڈرز یہ سوچ لیں کہ شکست سے حریف ملک یا طاقت مستقبل میں مزید طاقتور ہو جائیں گے۔
یوکرائن کی تصویر بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ روسی افواج پیوٹن کے اسی بیانیے اور نعرے تلے یہ جارحیت جاری رکھے ہوئے ہیں کہ یوکرائن کو ہر صورت روس میں ضم کرنا ہے۔ روس اگر یوکرائن پر قبضہ نہ کر پایا تو پیوٹن کا سیاسی کیرئیر بہت جلد اختتام ہو جائے گا۔ اس شکست پر ایک بار پھر روسی عوام کو سویت یونین کے ٹوٹنے کا منظر دیکھنا پڑے گا۔ جدید جنگی تاریخ میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک طاقتور ملک کسی کمزور ملک پر مکمل قبضہ کر لے۔ جب کبھی ایسی کشیدگی پیدا ہوتی رہی اقوام عالم نے اپنا کردار ادا کیا۔
روس سے مد مقابل یوکرائن کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یوکرینی افواج اور عوام دونوں ہی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یوکرینی بھی اپنی آزادی، خود مختاری اور سالمیت کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ ایک طرح سے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یوکرینی افواج اپنے دفاع کی خاطر ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ دفاع کی اس جنگ میں یوکرائن کا نقصان روس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یوکرائن روس کے مقابلے میں کمزور ہے لیکن اہل نظر یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ یوکرینی عوام اور قیادت کو کون سی چیز اس جنگ میں ثابت قدم رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف امریکی مدد تو دوسری طرف ان کا نظریہ بقاء ان کے لیے تازہ سانس فراہم کر رہا ہے۔
حرف آخر یہ کہ یوکرائن نے بتدریج اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے شروع کر دیے ہیں۔ روسی افواج پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔ اس پسپائی پر ان کا مؤقف یہ ہے کہ جنگی حکمت عملی کی خاطر ان کو یہ قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس سے روس کی شکست واضح ہو رہی ہے۔ یورپی ممالک اور خاص طو ر پر امریکی حمایت یوکرائن کو ثابت قدم رکھے ہوئے ہے۔