Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Propaganda War

Propaganda War

پروپیگنڈاوار

جب دو ممالک کے درمیان کسی تنازعہ پر شدت آجائےاور تنازعہ کا کوئی حل نہ نکلے تو بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ جاتی ہے۔ اور اگرایسا ماحول برقرار رہے توحالات نارمل سے تناؤ کی طرف تیزی سے بڑھنے لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اکثر بین الاقوامی ممالک امن قائم رکھنے، جنگ نہ ہونے اور تنازعہ کے حل کیلئے آگےبڑھتے ہیں اور اپنا کردار اداکرتے ہیں۔ لیکن ثالث ملک اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو فریقین آپس میں جنگ میں کود پڑتے ہیں اور پھر تباہی دونوں اطراف ہوتی ہے۔

یہ نقصان جانی، مالی اور معاشی غرض ہر سطح کا ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں بھی اقوام عالم جنگ بندی کی کوششیں کرتی ہے اور فریقین کو امن و سلامتی کی تلقین کرتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہر جنگ پہلے جنگ بندی پر رکی اور پھر مذاکرات ہوئے جو دونوں فریقین کو قبول کرنے پڑے۔

اسی تناؤ کی کیفیت میں جو عنصر سب سے اہم ہے اور تیزی سے پھیلتا ہےوہ ہے پروپیگنڈا۔ پروپیگنڈا ایسی کسی بھی صورتحال میں پھیلایا جاتا ہے تاکہ ایک موقف کو تقویت پہنچے تو دوسری طرف مخالف بیانیے کو کمزور کیا جائے۔ لفظ پروپیگنڈہ ویسے ہی منفی معنی رکھتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد ایسے خیالات، عقائد یا نظریات ہیں جو جان بوجھ کر پھیلائے جاتے ہیں تاکہ ایک مخصوص صورتحال کو نفسیاتی سطح پر کامیاب کیا جائے اور اس کا منفی اثر دوسرے فریق پر پڑے اور وہ اپنے عقیدے یا خیالات سے مایوس ہو کر دستبردار ہوجائے یا ان کی نفی کردے۔ پروپیگنڈا میں عام طور پر بیانات، نعرے، تصاویر، نغمے، نمائش، خاکے وغیرہ کے سہارے کیاجاتا ہے۔ پروپیگنڈے کا مقصد خاص اذہان کو متاثر یا مایوس کرنا بھی ہوتا ہے تاکہ عوام میں ایک تحریک پیدا ہو۔

پروپیگنڈا سر عام بھی ہوتاہے اور مخفی بھی۔ یہ عقلی اور استدلالی بھی ہوتا ہے۔ اس میں جذبات کو ابھارا جاتا ہے جس میں کوئی اپیل بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کے خلاف ایک عرصے سے مختلف سطح پر آرمی مخالف بیانیے چلائے جارہے ہیں۔ ان بیانات میں پاکستان آرمی کو کمزور، اخلاقی طور پر گری ہوئی اور ناکام فوج کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا عام مقصد پاکستانی عوام کے فوج سے متعلق جو جذبات ہیں ان کو کمزور کرنا، غلط ثابت کرنا یا تمام مسلح فورسز کے لیے نفرت پیدا کرنا ہے۔ اس کے پیچھے جو مقصد پنہاں ہے وہ یہ کہ عوام کااپنی افواج سے اعتماد، یگانگی اور محبت کا رشتہ کمزور ہو کر ختم ہوجائے۔ ایسی کیفیات ملک میں خانہ جنگی پیدا کرتی ہیں۔

جب ہٹلر کی نازی پارٹی برسراقتدار آئی تو جرمنی کو مضبوط کرنے اور جنگ کیلئے تیار کرنےکے لیے جنگی پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ عوام کے ذہنوں میں جرمنی کی ایک مثالی، منفرد اور برتر حیثیت کو اجاگر کیا گیا۔ ایک عام جرمن خود کو باقی ساری اقوام سے اعلیٰ اور طاقتور سمجھتا تھا۔ یہ تاثر عام کیا گیا کہ جرمن بلڈ خالص ہے اور باقی اقوام کسی نہ کسی طور پر آمیزش کا شکار ہیں۔ اپنے آپ کو طاقتور باور کرانے کیلئے بڑے لیول پر افواج کی تنظیم نو کی گئی۔

جرمن فوج کی نمائش اس طرح کی جاتی تھی کہ ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ اس کا منفی تاثر یہ ہوا کہ جرمنی سے ملحقہ چھوٹے اور کمزور ممالک اس جنگی پروپیگنڈے میں رگڑے گئے اور ہٹلر کے جنون کا ایندھن بن گئے۔ ہٹلر نے آسٹریا کو جرمن ایمپائر کا حصہ قرار دیا اور آسٹرین خطے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اسے جرمن یہودیوں سے خطرہ ہے تو اس نے یہودیوں کے خلاف ایک منظم تحریک ہولو کاسٹ چلائی جس سے متاثرہ یہودی ذہنی طور پر آج تک نہیں نکل سکے۔

واپس آتے ہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف جاری پروپیگنڈا وار پر۔ مختلف سوشل میڈیا فورمز پر منظم طریقے سے دشمنان افواج پاکستان نفرت آمیز مواد پھیلاتے ہیں جن میں تاریخی طور پر پاکستان آرمی کے آپریشنز اور جنگوں کو بطور شکست دکھایا جاتا ہے۔ اس سلسلےمیں مختلف فیک اکاؤنٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں ان کی آئی ڈیز افواج پاکستان کے کسی محب کی بنائی ہوئی لگتی ہیں یا ان کےٹائٹل ایسے ہوتے ہیں کہ آپکی توجہ اپنی طرف کر لیتے ہیں۔ تمام سوشل میڈیا چینلز جیسا کہ فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، یو ٹیوب وغیرہ پر ایسی پوسٹ یا ویڈیوز شئیر کی جاتی ہیں جس سے یہ لگے کہ پاکستانی فورسز دشمن کی افواج کے مقابلے میں کمزور ہیں۔

اس رجحان کو تقویت دینے کیلئے تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا جھوٹ تیار کیاجاتا ہے جو سچ کے عین قریب ہو۔ ایک ایسا جھوٹ جس کو سننے اور دیکھنے والا اس کی تصدیق کیے بغیر اس کو سچ مان لے۔ جیساکہ 1948، 1965، 1971 اور 1999 میں ہونے والی جنگوں میں پاکستان کی پوزیشن کوکئی جگہوں پر کمزور ثابت کرنے کیلئے کئی طرح کی من گھڑت کہانیاں اور قصے بنائےجاتے ہیں۔ جس سے یہ محسوس ہو کہ ہماری افواج دشمن کے مقابلے میں واقعی کمتر ہیں۔ تاریخ بدلنے کیلئے بالی وڈ اور ہالی وڈ میں ایسی کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں جن میں افواج پاکستان کے کامیاب آپریشنز کو یا تو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا یا ان کامیابیوں کوناکامی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

پروپیگنڈا وار کی اس قسم نے اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہماری قوم میں ایک ایسا طبقہ نظر آتا ہے جو ماضی اور حال کی کامیابیوں کو ایسے جھوٹے مواد سے موازنہ کرتا ہے۔ بجائے ایسی مہمات کو مستند اور باوثوق ذرائع سے کنفرم کرنے کے اس سوچ کے حامل افراد ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا وہ اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے منفی رجحان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ان کے نزدیک اداروں پر تنقید ہونی چاہیے اور وہ بھی مادر پدر آزاد۔ ایسی تنقید جس کا مقصد ادارے کی بہتری نہیں بلکہ اس کو کھوکھلا کرناہے۔

ایسی سوچ اور عقائد سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ تشہیری مہم چلانی چاہیئے تاکہ سچ اور جھوٹ واضح ہو۔ ملک کی نچلی سطح تک ایسے افکار کی ترویج کرنی ہوگی جس سے عوام میں پاکستان اور اس کے سیکیورٹی اداروں کے درمیان ہر خلیج کو ختم کیا جاسکے۔ پاکستان آرمی کا ادار ہ آئی ایس پی آر ضرورت پڑنے پر پریس ریلیز جاری کرتا رہتا ہے جس میں ایسے تمام جعلی پروپیگنڈے کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ لیکن یہ ان تمام میڈیا ہاؤسز، سوشل میڈیا چینلز کے ہینڈلرز اور کنڑولرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت آمیز مواد اور انٹی آرمی بیانات کی حقیقت کا پردہ چاک کریں۔ عوام تک حقیقی سچ سامنے لائیں نہ کہ وہ جھوٹ جو اتنا زیادہ پھیلایا جائے جس کے آگے سچ بھی جھوٹ لگے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Muasharti Zawal

By Salman Aslam