Pak Iran Taluqat
پاک ایران تعلقات
اسلامی جمہوریہ ایران جنوب مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ اس ملک کا رقبہ تقریبا 1.65 ملین مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا یہی رقبہ اس کو ایشیا کو دوسرا بڑا ملک بناتا ہے۔ ایران کے مشرق میں افغانستان اور پاکستان، مغرب میں عراق اور ترکیہ، شمالی سرحد پر ترکمانستان، آذربائجان، آرمینیا اور جنوب میں خلیج فارس کے ساحل ہیں۔ خلیجی ساحلوں کی لمبائی تقریبا 2700 کلومیٹر ہے۔ شمالی ایران میں البرز کوہستانی سلسلہ موجود ہے جبکہ جنوب میں زاگرس کوہستانی سلسلہ ہے۔ ان دونوں سلسلوں کے درمیان ایرانی دشت ہے۔
ایران کا ہمسایہ پاکستان بھی اسلامی جموریہ ہے۔ دونوں ممالک کی سرحد بذریعہ زاہدان، تفتان ملتی ہے۔ پاک ایران سرحد پر ایک عدد ہامون ماشکیل جھیل بھی موجود ہے۔ ایرانی سرزمین ساحلوں، کوہستانی علاقوں، ریگستانوں اور جھیلوں پر مشتمل ہے جس میں سب سے بلند ترین مقام داماند ہے جس کی اونچائی 5500میٹرسے بھی زیادہ ہے۔ ایرانی سیاست میں سب سے مشہور نقطہ اسلامی شیعہ انقلاب ہے جس کے بانی آیت اللہ، روح اللہ خمینی تھے۔ ایران اس انقلاب کی لپیٹ میں سن 1979 میں آیاجس کے نتیجے میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی ملک چھوڑنے پر مجبو ر ہوگئے۔ ان کے فرار کے فوری بعد بادشاہت بھی ختم ہوگئی۔ انقلاب نے ایرانی سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم و ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے۔ انقلاب میں اس قدر شدت تھی کہ زیرو ٹالرنس کاعملی مظاہر دیکھنے کو ملا۔ یہ انقلاب فرانسیسی انقلاب کی یاد تازہ کرتا ہے۔
اسلامی انقلاب کا مقصد ایرانی عوام کے طرز زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا تھا۔ سیاسی طور پر بھی ایران کو اسلامی اصولوں کی طرز پر چلانا مقصود تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی شریعت کو من و عن نافذ کرنا تھا۔ ایرانی عوام کو اس وعدہ پر ابھارا گیا کہ وہ غربت اور زمینداروں کے تسلط سے آزادی دلا نا تھا۔ اسلامی دنیا سمیت دوسرے ممالک نے بھی اس انقلاب کو قریب سے محسوس کیا جب امریکی سفارتی عملہ بھی ایران میں یرغمال بن گیا۔ اسلامی تاریخ بھی اس انقلاب سے اثر انداز ہوئی۔ موجودہ صدی میں اسی طرح کئی اسلامی ممالک میں بھی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا۔
بےشک، پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات بہت غیر معمولی اور اہم ہیں۔ ان تعلقات میں وقت کی لہروں نے بھی ایک خاص حد تک اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان اور ایران ایک دوسرے کو اپنے دوست اور برادر ملک تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان کے وجود کے بعد ایران کی طرف سے پاکستان کو سفارتی مدد بھی ملی۔ دونوں ممالک کی آبادی کے زیادہ تر حصے مسلمان ہیں، جس کی جہ سے ان کے درمیان ایک مذہبی رشتہ بھی قائم ہے۔ ہر سال پاکستان سے ہزاروں زائرین مقدس مقامات کی زیارت کیلئے ایران کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ سیاسی مفادات ہیں، اور ان کا تعاون قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں برادر ممالک کے درمیان ایک لمبے عرصے سے مخصوص جذبہ خیر سگالی پر مبنی تعلقات قائم و دائم ہیں، اور ایک دوسرے کے ملک میں آمد و رفت، تکنیکی اور معاشی تعاون میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ان اچھے تعلقات کے باوجود کچھ مذہبی و مسلکی مسائل، بنیادی معاشی اور سیاسی مشکلات کی بنا پر ان کے درمیان تنازعات بھی ہوتے رہے ہیں۔ بعض اوقات دونوں ممالک کے سیاسی و عسکری حلقوں میں سرد مہری کا سامنا بھی رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پھلتے پھولتے تعلقات میں کشیدگی بڑھنے لگی۔ پاک ایران وفود خطے کے مسائل کے حل کی خاطر بذریعہ تنظیم بھی ملتے ہیں، خصوصاً خطے کے امن و امان کے حوالے سےایشیا کے ایک حصے میں موجود ان ممالک کو اپنے تعلقات میں مزید بہتری لانے کیلئے ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان براہ راست تجارت کے وسیع مواقع ہیں جو ان کے معاشی تعاون کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان انرجی معاہدے ہوتے ہیں، مثلاً گیس پائپ لائن کے تعاون کی صورت میں۔ یہ معاہدے ان ممالک کے عوام کے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت معاون ہیں۔ پاک ایران سرحد پر کئی دفعہ کشیدگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ فائرنگ کا تبادلہ اور جانی و مالی نقصان کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن یہ کشیدگی کبھی بھی کسی بحران کا سبب نہیں بنی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ایران کی جانب سے کبھی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ دوسری جانب ایران بھی پاکستان کی عسکری و جوہری صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ہے جو دونو ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لے آتی کے۔
دونوں ممالک کو بنیادی آبادی کے مسائل، جیسے صحت، تعلیم اور بہتر زندگی کے مواقع جیسی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ایک جانب پاکستان اپنے معاشی ابتری کے دور سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کی بنیادی ضروریات زندگی جیسے مسائل درد سر بنے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ایران بھی بہت سی معاشی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ان پابندیوں کی سب سے بڑی وجہ ایران کا جوہری پروگرام ہے جس کو امریکہ پر امن ماننے کو تیار نہیں۔ ایران بھی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
دونوں ممالک قومی ترقی کے پروجیکٹس میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں، جو اقتصادی تعاون کو بڑھاتے ہیں۔ ان پراجیکٹس کے بغیر ترقی کا سفر ناممکن ہے۔ اور انہی منصوبوں کی تکمیل دونوں ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کا سبب ہے۔
پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے ایران کے ساتھ بھی تعلقات استوار ہیں۔ 2011 سے 2020 کی دہائی میں بھارت نے ایران میں خاصی سرمایہ کاری کی۔ جس کا۔ بنیادی مقصد ایران کو انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بحالی میں مدد فراہم کرنا تھا۔ لیکن پس پردہ اس کا واحد مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کو کاؤنٹر کرنا تھا۔ انڈین خفیہ ایجنسی را کے اہلکار ایرانی سرزمین کو کئی بار استعمال کرکے پاکستان میں تخریب کاری کرتے رہے۔ پاکستان چونکہ اس تکنیک سے بخوبی آگاہ تھا اس لیے پاکستان نے ایرانی قیادت کو بار بار ملکی سلامتی کے خلاف عمل پر متنبہ کیا۔ بلوچستان کے اندبدامنی پیدا کرنے اور اس کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کرنے کے کئی ناکام منصوبے ہوتے رہے۔ اس مقصد کیلئے ایرانی سرزمین کا استعمال ہوتا رہا۔ بھارتی دخل اندازی کی سب سے بڑی مثال کلبھوشن یادیو ہے۔ بھارتی نیول آفیسرکے اعترافی بیانات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔