Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pak Afghan Taluqat (2)

Pak Afghan Taluqat (2)

پاک افغان تعلقات (2)

سویت یونین کے افغانستان کے قبضے کے نتیجے میں افغان صدر حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا گیا اور سویت یونین کے حامی ببرک کرمال کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔ اس سے ڈیورنڈ لائن ایک بار پھر گرم ہوئی۔ پاکستان کو اپنی خود مختاری اور سکیورٹی کے خطرات لاحق ہوگئے۔ سویت ریڈ آرمی نے افغانستان پر مکمل قبضے کیلئے ایک پلان ترتیب دیا جس کے تحت افغانستان کو چاروں طرف سے گھیر کر اس کا رابطہ باقی ہمسایہ ممالک سے منقطع کرنا اور پھر اپنا کنٹرول جمانا تھا۔

یہاں پر امریکی انٹری ہوتی ہے جب امریکی صدر جمی کارٹر نے مئی 1980 کو افغانستان کا ساتھ دینے اور پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے پاکستان کا مالی، ملٹری اور سیاسی مدد کرنے کا اعلان کردیا۔ اس مدد کے پیچھے بظاہر امریکی مقصد افغانستان کی آزادی قائم رکھنے، قابض سویت ریڈ آرمی کو بھگانے اور خطے کے استحکام کو برقرار رکھنا تھا۔ اصل امریکی مقصد یہ تھا کہ وہ روس کو پاکستان کے سمندر تک رسائی نہ ملنے دے۔ اگر روس کو گرم پانیوں تک رسائی ملتی ہے تو روس اقتصادی طور پر مزید مضبوط ہوجاتا۔ مزید یہ کہ اس خطے کی سیاست، جغرافیے اور اہم راہداریوں پر روس کا کنٹرول قائم ہوجانا تھا۔ اس سارے منصوبے کو روکنے کیلئے افغان مجاہدین کو بذریعہ پاکستانی ملٹری خاص کر آئی ایس آئی امداد ملنا شروع ہوئی۔

پاکستان کی طرف سے یہ امداد اور تربیت حزب اسلامی تنظیم تھی جس سب سے زیادہ سر گرم اور بھروسہ مند سمجھی جاتی تھی۔ پاکستان کے خفیہ اداروں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی انتہائی کامیاب تعاون کی مدد سے سویت یونین کی ریڈ آرمی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ یہی ریڈ آرمی ماسکو کیلئے ایک ایسا زخم بن گیا جس سے خون رستنے لگا۔ سال 1989 میں سویت یونین نے محمد نجیب اللہ کی صدارت میں افغانستان سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔

اس جہاد کے نتیجے میں تحریک اسلامی طالبان افغانستان نے قندھار کے قریب سال 1994 کو ایک نئی تحریک کی صورت میں سامنے آئی۔ صرف تین سال کے قلیل عرصے میں 1997 کو اس تحریک نے 32 سے 27 افغان صوبوں میں اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ پاکستان کی طرف سے طالبان کی اس حکومت کو نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ مکمل سفارتی سپورٹ فرا ہم کی۔ چمن قندھار، ہیرات کوشکھا ہائی وے کی دوبارہ تعمیر کیلئے پاکستان کی طرف سے طالبان کی حکومت کو مالی امداد بھی فراہم کی گئی۔

5 مئی، 1999 کو امریکی کانگریس نے ایک ایسی قرارداد پاس کی جس میں صدر جارج ڈبلیو بش پر زور دیا گیا کہ امریکی حکومت کوئی ایسی حکومت یا رجیم کو نہ مانے جس میں خواتین کی تذلیل کی جائے، ان کے حقوق کو سلب کیا جائے وغیرہ۔ اسی دوران سعودی عرب نے اسامہ بن لادن کو سیاسی پناہ ینے سے انکار کردیا جبکہ طالبان حکومت نے اسامہ کو نہ صرف سیاسی پناہ دی بلکہ اس کو آزادانہ پورے افغانستان میں رہنے کی اجازت دی۔ یوں طالبان رجیم نے مکمل طور پر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ اس کے علاوہ طالبان اور عرب جنگجوؤں کو مالی، جانی اور اسلحہ سے بھر پور مدد دی۔

11 ستمبر 2001 کو دو جہاز امریکی ٹاورز سے ٹکرا گئے۔ طیارے حادثے نے امریکہ سپر پاور پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس حادثے کی ساری ذمہ داری امریکہ نے طالبان پر عائد کی۔ 11/9 کے بعد پاک افغان تعلقات میں ایک نیا موڑ آجاتا ہے۔ پاکستان اس حادثے کے بعد اپنے دو اتحادیوں کے درمیان انتہائی کشیدہ صورتحال میں پھنس جاتا ہے۔ ایک طرف طالبان اور ان کی حکومت جس کاپاکستانی فیصلہ ساز قوتوں نے بھرپور ساتھ دیا اور دوسری طرف سپر پاور امریکہ جو پاکستان کا ملٹری، اکنامک اور تجارتی ساتھی۔ پاکستان اپنے قیام سےہی امریکی چھتری تلے رہ رہا تھا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی نے ایک نیا موڑ لے لیا۔ ملکی خارجہ پالیسی میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دہشت گردی نے خارجہ پالیسی کی تشکیل اور لائحہ عمل میں ایک نئی سمت پیدا کردی۔ خاص کر پاکستان کی افغانستان کے متعلق خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملی۔ ایک عرصے تک پاکستان افغانستان کو خارجہ محاذ میں ایک اہم کھلاڑی سمجھتا تھا لیکن 11/9 کے بعد اس میں ایک نیا موڑ آگیا۔ وہ افغان طالبان جو پاکستان کے فیصلہ ساز قوتوں کی مدد سے اقتدار پر براجمان ہوئے تھے دشمن تصور ہوگئے۔ پاکستانی مذاکراتی ٹیم افغان طالبان کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہوگئی۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پاکستان کو دو ٹوک وضاحت تھی کہ کیا آپ ہمارے ساتھ ہے یا خلاف۔ پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے حسب سابق امریکی کیمپ کو ہی چنا اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔

امریکی جہازوں نے افغان طالبان کے ٹھکانوں اور جہادی کیمپوں پر کھل کر بمباری کی۔ بمباری سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ امریکی حملوں کے بعد طالبان رہنماؤں اور جہادیوں کی کثیر تعداد افغانستان میں ٹھکانوں میں چھپ گئی۔ باقی طالبان ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان میں چھپ گئے اور وہیں سے جہادیوں کو آپریٹ کرنے لگے۔ 13 نومبر 2001 تک کابل امریکیوں کے پاس آچکا تھا اور طالبان قیادت غاروں اور پہاڑوں میں چھپ گئے۔

ان حملوں کے پیچھے پاکستانی خفیہ انفارمیشن، فلائٹ کاریڈور اور اپنی فضائی حدود اور اڈوں کی فراہمی تھی۔

افغانستان میں صدارتی الیکشن کے بعد جب حامد کرزئی نئے صدر بنے تو جنرل مشرف نے 2002 کو افغانستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران صدر مشرف نے افغانستان میں ترقیاتی کاموں کےلیے 100 ملین ڈالرز کی امداد کا اعلان بھی کیا۔ اس دورے کے بدلے میں صدر حامد کرزئی نے بھی اسی سال پاکستان کا سرکاری دورہ کیا اور پاکستان کی امداد کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات بحال ہوگئے۔ پاکستان کی طرف سے کرزئی حکومت کی زیر صدارت افغانستان کی اخلاقی، سفارتی، سیاسی اور معاشی مدد کا اعادہ بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ افغانستان میں نئے انتخابات کے پر امن انعقاد کا بھی ساتھ دیا گیا۔ الیکشن کے دوران پاک افغان بارڈو کو مکمل طور پر بند رکھا گیا تاکہ کوئی کشیدگی نہ پیدا ہوسکے۔

ایک نئی جنگ سے بچنے کے لئے پاکستان کی طرف سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کی بھی بھرپور کوششیں ہوتی رہیں۔ اس بات کی گواہی سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جنرل جارج ٹینٹ نے اپنی کتاب 'ایٹ دا سنٹر آف سٹارم' میں واضح لکھا کہ پاکستان کی طرف سے مخلصانہ کوششیں ہوتی رہیں کہ امریکہ اور طالبان ایک میز پر بیٹھ کر پر امن ڈائیلاگ کا آغاز کریں اور موجودہ جنگ کا خاتمہ ہوسکے۔

ایک طرف جب پاکستان کی انتہائی کاوشیں تھیں کہ خطے میں امن قائم ہوجائے اور جنگی ختم ہوجائے تو دوسری طرف امریکہ اشارے پر افغانستان میں بھارتی انٹری ہوئی۔ اس بھارتی انٹری کا مقصد افغانستان کی سرزمین میں بھارتی اثر و رسوخ کا قیام اور پاکستان مخالف بیانیہ بنانا تھا۔ اس بیانیے کی وجہ سے دہشت گردی کی جنگ پاکستان میں بھی داخل ہوئی۔ ملک کے قریبا تمام چھوٹے اور بڑے شہروں پر خود کش حملے ہونے لگے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کو ایکٹو کیا تاکہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کیا جائے۔ 2008 میں پاکستان میں آمریت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور نئی جمہوری حکومت بن چکی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ جمہوری میدان مارلیا۔

صدر آصف علی زرداری نے 2009 کو افغانستان کا سرکاری دورہ کیا جس کا مقصد خطے میں امن کی بحالی اور آپسی پراکسی جنگ کا خاتمہ تھا۔ اس کے بدلے میں اگلے سال 2010 کو صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں دونوں ملکوں نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاک افغان بارڈر پر جو سمگلنگ ہورہی تھی وہ کافی حد تک کنٹرول ہوگئی۔ اسمگلنگ مافیہ کی روک تھام کے سلسلے میں دو طرفہ تعاون ہوا۔ کھانا، منرلز اور دیگر کئی مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ پاکستان کی معیشت پر گہرا اثر پڑا۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک جوائنٹ چیمبر آف کامرس کا انعقاد بھی ہوا۔ 2015کو جوائنٹ اکنامک کمیشن بھی بنایا گیا جس کا مقصد دو طرفہ تجارت میں مزید بہتری اور مضبوطی تھا۔

المختصر پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات میں کئی نشیب و فراز ہیں۔ ان نشیب و فراز نے دونوں ممالک کے تعلقات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ دونوں ممالک میں اگر تجارتی تعاون بڑھے تو ترقی کا راستہ یقینی ہے جس سے بدامنی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ہماری فارن پالیسی میں تجارت کا عنصر لازمی ہونا چاہئے۔ طالبان کی موجودہ حکومت کی معیشت کو بذریعہ تجارت اور تعاون بہتری کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔ اور پاکستان بطور ہمسایہ ملک یہ تعاون کرکے اپنے دیرینہ تعلقات کو مزید بہتری کی جانب گامزن کر سکتا ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Kashmiriyon Se Bjp Kyun Darti Hai?

By Wusat Ullah Khan