Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pak Afghan Taluqat (1)

Pak Afghan Taluqat (1)

پاک افغان تعلقات (1)

افغانستان جنوبی ایشیا میں واقع ایک لینڈ لاک اسلامی ملک ہے جس کے ہمسایوں میں پاکستان، چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان ہیں۔ لینڈ لاک ہونے کی وجہ سے اس کی سرحد کسی بھی سمندر سے نہیں ملتی۔ ملک میں کئی قبائل آباد ہیں جن میں پشتون، تاجک، ہزارہ نمایاں ہیں۔ دیگر قبائل میں بلوچ، ترک، نورستانی، عرب، گجر، بروہی، قزلباش اور کرغیز وغیرہ شامل ہیں۔ کل رقبہ 6,52,630 مربع کلومیٹر ہے۔ اگر رقبہ کا موازنہ کیا جائے تو افغانستان امریکی ریاست ٹیکساس سے تھوڑا سا چھوٹا ہے۔

قدرتی وسائل میں قدرتی گیس، پٹرولیم، کوئلہ، کاپر، کرومائیٹ، سلفر، زنک، آئرن اور کئی قیمتی پتھر ہیں۔ کل رقبے میں سے قریبا 58 فیصد زرعی ہے۔ صرف 2 فیصد رقبہ جنگلات پر محیط ہے۔ 32,080 مربع کلومیٹر رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ پہاڑی سلسلوں میں سب سے نمایاں ہندو کش، سپن غر، سلیمان، قراقرم، پامیر ہیں۔ پہلے اس خطے کا نام آریانہ تھا پھر افغانیوں نے اس کا نام خراسان رکھا اور پھر افغانستان۔ پاک افغان بارڈر کو ڈیورنڈ لائن کہاجاتا ہے جو 1893 کو مارٹیمر ڈیورنڈ نے کھینچی تھی۔

احمد شاہ درانی سے پہلے افغانستان مختلف قسم کے قبائل میں تقسیم تھا اور کوئی مرکزی اتحاد نہ تھا جس کی وجہ سے اس خطے کی کوئی ایک ریاستی حیثیت نہیں تھی۔ درانی نے تمام افغانی قبائل کو اکٹھا کیا اور یوں 1747 میں افغانستان بطور ایک ملک کا قیام عمل میں آیا۔ 1919 تک افغانستان اس وقت کی سپر پاورز برطانیہ اور سویت یونین کے درمیان ایک بفر زون رہا۔ بفر زون میں رہنے کے باوجود یہ خطہ برٹش فورسز کے زیر تسلط ہی رہا پھر 1919 میں برطانوی تاج سے آزادی حاصل کی۔ 1973 تک جمہوری حکومتوں کا سایہ رہا پھر 1978 میں سویت یونین کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ 1979 میں حالات سازگار ہونے تک روس نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ پوری دنیا کا تھانیدار کہلانے والے امریکہ نے افغانستان پر اپنی نظریں جمانے اور سویت روس کو بھگانے کی خاطر پاکستان سے رجو ع کیا اور یوں روس کے خلاف جہاد شروع ہوگیا حتٰی کہ 1989 کو روس پسپا ہوگیا اور افغانستان ایک بار پھر آزاد ہوگیا۔

افغان جہاد نے پاکستان کو گن کلچر، نشہ، کرائے کے مجاہدین اور جہادی نظریہ دیا جو آج تک پاکستان کے بنیادی ریاستی نظریہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ اسی نظریے نے پاکستان میں بد امنی، شریعت میں شریعت کا نفاذ اور دہشت گردی کا ایک طویل دھچکا دیا جس کے آفٹر شاکس آج بھی بم دھماکوں کی صورت میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ 1995 تک افغانستان مختلف نوعیت کی خانہ جنگیوں کا شکار رہا پھر 1996 کو طالبان جو بنیادی طور پر پاک امریکہ تجربے کا نتیجہ تھا نے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ طالبان کی یہ حکومت پاکستانی فیصلہ ساز قوتوں کے مدد سے بنی۔ اس حکومت کے قیام کیلئے پاکستانی نظریہ یہ تھا کہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی کو ختم کیا جائے اور یوں افغان طالبان کلاشنکوف کے ہمراہ اقتدار پر براجمان ہوگئے۔

1947 میں جب پاکستان نے برطانوی شاہی سے آزادی حاصل کی تو ہمسایہ ملک بھارت نے افغانستان کو پاکستان کی مخالفت کرنے اور پاکستان کو بطور آزاد ریاست نہ ماننے پر مائل کیا۔ آزادی کے فوری بعد پاکستان کو جس ریاست نے ماننے سے انکار کیا وہ افغانستان تھا۔ اقوام متحدہ میں افغان وفد نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ عمل بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یوں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا آغاز اس ڈسپیوٹ سے ہوتا ہے۔ اسی دوران مسلح افغانیوں نے پاکستان کے بارڈر پر فائرنگ کی تاکہ پختون خواہ کے لوگ پاکستان سے متنفر ہوں اور بھارت کے ساتھ الحاق کی خواہش کا کھل کر اظہار کریں۔ فائرنگ کے نتیجے میں پاک فضائیہ نے اپنی سرحدوں کی حفاظت اور خود مختاری کو قائم رکھنے کیلئے ان مسلح افغانیوں پر فضائی گولہ باری کی جس سے بھارتی خواہش ختم ہوگئی۔

پاک افغان تعلقات میں کئی دراڑیں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سی افغان حکومتوں نے پاک افغان بارڈر ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کیا۔ پاکستان کا موجودہ خیبر پختون خواہ کو افغانی اپنا حصہ مانتے ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا ذمے دار بھی وہ پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ 1956 کو پاکستان کےصد سکندر مرزا نے افغانستان کا سرکا ری دورہ کیا۔ اس کے بعد حسین شہید سہروردی نے اگلے سال 1957 کو افغانستان کا سرکاری دورہ کیا۔ ان دو سرکاری دوروں کے جواب میں افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے 1958 کو پاکستان کا دورہ کیا۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک اعتماد اور قربت کی فضا بحال ہوئی۔ ایران نے 1963 میں تہران اکارڈ کرویا جس سے پاک افغان تعلقات مزید مستحکم ہونے لگے۔ یہ ایران کی طرف سے ایک نہایت اچھا قدم تھا۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک نے ڈپلومیٹک تعلقات قائم کیے اور ڈیورنڈ لائن کھول دی جس سے تجارت اور دیگرمعاشی سرگرمیاں بحال ہوگئی۔

1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران افغانستان کی طرف سے سفارتی حمایت جاری رہی جس سے پاکستان کو اپنے مغرب سے توجہ ہٹانے اور مشرق میں بھارت پر مرکوز کرنے پر مدددی۔ 6 سال بعد 1971 کو جب پاکستان ایک نہایت حساس ایشو سے گزرا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو افغانستان کی طرف سے کوئی بھی مزاحمت نہیں ہوئی اس اس جنگ کے دوران افغانستان نے مکمل غیر جانبداری دکھائی اور بھارتی جارحیت پر کسی کا ساتھ نہ دیا جس سے پاکستان کو اپنی مغربی سرحد سے کسی ایشو کا سامنا نہ ہوا۔ دو سال بعد 1973 کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو آئین دیا تو افغانستان میں سردار داؤد نے ظاہر شاہ کی حکومت سنبھال لی۔

سردار داؤد کے آتے ہی پاکستان میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا کہ اب افغانستان پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرے گا۔ اس سے پاکستان میں بد امنی اور دہشت گردی کا خدشہ بڑھ سکتا تھا۔ اس سے پہلے بھی افغانستان کی طرف سے مری اور بگٹی قبائل کو پناہ گاہیں فراہم کی گئیں تھی۔ داؤد کی حکومت اور اس کی پاکستان مخالف سرگرمیوں سے نجات کیلئے پاکستان نے افغان حکومت کو گرانے اور پاکستان میں استحکام بحال رکھنے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔ افغانستان میں داؤد مخالف گروہوں اور تنظیموں کا پاکستان کی طرف سے حمایت اور سپلائی شروع کردی گئی۔ افغان مذہبی تنظیمیں پاکستان کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل ملنے پر داؤد مخالف اور کمیونسٹ محالف تحریک شروع کر دی گئیں۔ ان جہادی تنظیموں کا جنگی تربیت اور اسلحہ فراہم کیا گیا جس سے افغانستان میں کشیدگی بڑھ گئی۔

سردار داؤد پاکستان کے اس منصوبے کو پہلے ہی بھانپ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی حکومت بچانے اور پاک افغان تعلقات کو بحال رکھنے کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو افغانستان کے دورے کی دعوت دی۔ 1976 میں پاکستانی وزیر اعظم کا گرم جوشی سے کابل میں اسقبال کیا گیا۔ اسی سال اگست میں داؤد کو اسلام آباد میں ریڈ کارپٹ استقبالیہ دیا گیا جس سے دونوں ممالک کے دوران کشیدگی ٹل گئی۔ 1978 کو کمیونسٹ حمایتی گروہوں نے داؤد کی حکومت کو ختم کردیا اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان نے کابل پر قبضہ کرلیا۔ داؤد کی حکومت کے خاتمے کے پیچھے سویت یونین تھا جو افغانستان پر قبضے کیلئے پر تول رہا تھا۔ ان کمیونسٹ گروہوں نے افغانستان کا نام جمہوریہ افغانستان سے تبدیل کر دیا۔

(جاری ہے)

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Amina Ki Muhabbat

By Mansoor Nadeem