Jang e Azeem Awwal
جنگ عظیم اول
1914 تک پورے یورپ میں برطانیہ سب سے بڑی طاقت بن چکا تھا۔ دنیا کے دوسرے بر اعظموں میں برطانوی کالونیز وجود میں آرہی تھیں اور برطانوی سامراجی نظام حکومت اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔ الغرض برطانیہ ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ برطانیہ کے اس طاقتور سٹیٹس کو صرف ایک ملک ہی چیلنج کر رہا تھا۔ وہ چیلنج یا رکاوٹ جرمنی تھا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں جرمنی کی حیثیت سوائے ایک کمزور ریاست کے اور کچھ نہ تھی لیکن پھر جرمنی نے اپنے دفاع اور خارجہ امور میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اپنے آپ کو برطانیہ کے سامنے بطور حلیف کھڑا کر لیا۔
1866 میں ریاست پرشیا ایک مضبوط اور طاقتور ریاست تھی۔ آسٹریا سے جنگ جیتنے کے بعد پرشیا نے "مرد فولاد اوٹو ون بسمارک" کی پر اثر قیادت میں فرانس کو شکست دینے کی غرض سے ایک جنگ چھیڑ دی۔ دنیا کی تاریخ میں یہ جنگ فرانکو-پرشین وار کے نام سے مشہور ہے۔
ان جنگی مہمات اور وقوع پذیر ہوتے واقعات کے نتیجے میں یورپ میں طاقت کا توازن تیزی بگڑنے لگا۔ بر اعظم یورپ میں ایک طرف آسٹریا–ہنگری ایمپائر موجود تھی جو رومن ایمپائر کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔ دوسری طرف خلافت عثمانیہ موجود تھی جو بلغاریہ، عرب اور افریقی ممالک کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ان دونوں طاقتوں کے درمیان چھوٹے ممالک بھی موجود تھے جن کا قد کاٹھ اور طاقت مذکورہ بالا طاقتور ریاستوں کے سامنے کچھ بھی نہ تھا۔ ان میں یونان اور سربیا سمیت کئی ممالک آزاد ہوکر خود مختار ہوچکے تھے۔ بوسنیا اور دیگر کئی اقوام بھی آزادی اور علیحدگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اہل جرمن عثمانی خلافت سے اپنے تجارتی تعلقات بڑھارہے تھے۔ ان تعلقات میں سب سے اہم خواہش یہ تھی کہ برلن سے بغداد تک ایک طویل ریل بیلٹ بن جائے تاکہ دونوں ریاستوں کے درمیان تعلق اور تجارت مضبوط اور محفوظ ہوجائے۔ جرمن اور خلافت عثمانیہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات، یورپین ریاستوں کی آزادی اور برطانیہ کی نو آبادیاتی وسعت یہ سب یورپ کے درجہ حرارت کو گرم کررہے تھے۔ یورپ میں بنتےبگڑتے معاملات ایک خوفناک تصادم کی طرف جارہے تھے جس کی عملی شکل جنگ عظیم اول کی صورت میں دنیا کے سامنے آنی تھی۔
جنگ عظیم اول کے پس منظر کو جان لینے کے بعد اگر ہم اس کی وجوہات کی جانب غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ بہت زیادہ تھیں لیکن ان میں سب سے بنیادی اور اہم وجہ خطے میں بڑھتا ہوا جرمن اثر و رسوخ تھا۔ جرمنی کی پھیلتی ہوئی سرحدیں اور عثمانی خلافت سے بڑھتے تعلقات نے یورپ میں طاقت کے توازن کو بگاڑ دیا۔ جرمنی کے نزدیک برطانیہ کی برصغیر، امریکہ اور افریقہ میں بنتی ہوئی نو آبادیاں اور کالونیز ایک خطرہ تھا۔ برطانوی اثر و رسوخ جرمنز کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ وہ اس ساری ڈویلپمنٹ کو حسد کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سب سے زیادہ اہم چیز برطانوی بحری بیڑہ (فلیٹ) تھا جس کے سامنے جرمن بحریہ بے بس تھی۔ اس فلیٹ نے جرمنز کو اس جیسا مضبوط بیڑہ بنانے پر بھی اکسایا۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان اسلحہ میں جدت اور مزید طاقتور بننے کیلئے ایک مسابقت شروع ہوگئی۔
اس مسابقت کو جب باقی یورپی ممالک نے محسوس کیا کہ جرمنی اور انگلینڈ حکمرانی کے نشے میں دھت تھے تو انہوں نے ان میں سے ایک یا دوسرے ملک کو اپنے لیے خطرہ جانا۔ ممکنہ تنازع سے بچنے کیلئے قریبا سارے یورپی ممالک نے کئی معاہدے کیے جس سے ان کی غرض پر امن بقائے باہمی، دفاع اور غیر جانبداری تھی۔ لیکن یورپ کا سیاسی، عسکری اور سفارتی درجہ حرارت اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اس صرف ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔ اس چنگاری سے پورے یورپ میں عالمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔
یہ چنگاری سراجیوو میں جلائی گئی جو اس وقت آسٹریا–ہنگری کا ہی ایک صوبہ تھا۔ سراجیوو اب بوسنیا ہر زیگووینا کا دارلحکومتی شہر ہے جو دریائے ملجاکا کے کنارے پر واقع ہے۔ آسٹریا کے حکمران ارشدوک فرانز فرڈیننڈ کا سراجیوو میں ایک طے شدہ سرکاری دورہ تھا۔ دورے کے دوران ارشدوک کو ان کی اہلیہ سوفی سمیت قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل ایک سربین قوم پرست نوجوان پرنسپ کے ہاتھوں ہوا۔ پرنسپ نے جب دونوں مقتولین کا کام تمام کیا اور تیسری دفعہ گولی چلانے لگا تو اس کے ہاتھوں پستول چھن گیا اوراس کو زمین پر گرالیا گیا۔ اسی اثناء میں پرنسپ نے زہریلا کیپسول نگل لیا لیکن بد قسمتی سے وہ زہریلے کیپسول سے نہ مر سکا۔ حراست میں آنے کے بعد پرنسپ کا عدالتی ٹرائل ہوا جس کے نتیجے میں اسے سخت قید تنہائی میں رکھا گیا۔ قید کے دوران وہ ٹی بی کے مہلک مرض میں مبتلا ہو گیا۔ مرض بڑھتا گیا اور اس کے جسم کی بیشتر ہڈیاں خراب ہوکر ناکارہ ہوگئیں۔ آخر کارقید میں ہی پرنسپ1918 کو مذکورہ بیماری کی وجہ سے فوت ہوگیا۔
آسٹرین حکومت نے گھبراہٹ میں اس سازش اور قتل کا سارا لزام سربیا کی حکومت پر لگا دیا کہ اس سازش کا منصوبہ سرکاری سطح پر ہوا تھا۔ اس الزام کے بعد سربیا اور آسٹریا کے درمیان وجہ جنگ پیدا ہوگئی۔ آسٹریا نے 28 جولائی 1914 کو جرمنی کے اکسانے پر سربیا کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ سربیا کی حمایت اور عملی مدد کیلئے روس کواس جنگ میں کود نا پڑا کیونکہ روس اور سربیا کے درمیان تعلقات تھے۔ فرانس نے اس ساری صورتحال کے جائزے کے بعد جنگ میں نیوٹرل یا غیر جانبدار رہنے سے صاف انکار کردیا اور پارٹی بننے کا فیصلہ کرلیا۔
جرمن وار پلان کے مطابق سب سے پہلے فرانس پر حملہ کرکے اس کوشکست دے کر خاموش کروانا تھا اور بعد میں روس سے لڑنا تھا۔ اس پلان کے پیچھے جو وجہ پنہاں تھی وہ یہ کہ جرمنی ایک ہی وقت میں دو محاذ جنگ نہیں کھول سکتا تھا۔ حالات میں تیزی سے پیدا ہوتی تبدیلی نے جرمنی کو مجبور کیا اور اس نے یکم اگست کو روس کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور دو دنوں بعد ہی فرانس کے خلاف بھی اپنا محاذ گرم کردیا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے پچھلی دہائی میں بھارت نے پاکستان کے خلاف مشرقی اور مغربی محاذ جنگ کھولنے کی سر توڑ کوششیں کیں تاکہ پاکستان کو مشر ق میں کشمیر، سیالکوٹ، پہاولپور اور راجھستان سیکڑز میں الجھائے رکھے اور مغرب میں افغانستا ن کا پورا محاذ کھولا جائے۔ ان دونوں محاذ جنگ کھولنے کا واحد مقصد پاکستان آرمی کو لڑائی میں الجھائے رکھنا تھا تاکہ وہ لڑ تے لڑتے تھک جائے اور اندرونی معاملات بھی پر امن نہ رہے جس سے پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر ڈی سٹیبلائز ہوجائے۔ لیکن دنیا گواہ ہے کہ بھارت اپنے ان عزائم میں کامیاب نہ ہوسکا۔