Faras O Unan
فارس و یونان
تاریخ ماضی کی ایک ایسی حقیقت پر مبنی داستان ہوتی ہے جس میں گزرے وقت کے قریبا تمام پہلوؤں کو قارئین کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ زمانہ قدیم میں کون کیا تھا۔ تاریخ عالم کے اوراق جنگ و جدل سے بھرے پڑے ہیں۔ تاریخ کے ابواب میں ایک سلطنت اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے جنگ لڑتی ہے تو دوسری سلطنت اپنےخطے کی سرحدوں کووسیع کرنے کی غرض سے اپنے سے چھوٹی، کمزور اور جنگی و معاشی طور پر کم تر ریاستوں کو کچل ڈالتی ہے۔ زمانہ ماضی سے لیکر آج تک ایسا ہی ہورہا ہے۔ آج بھی اگر ہم ساری دنیا کے طاقتور اور کمزور ممالک کو اسی تناظر میں دیکھیں تو ہمارے سامنے یہی منظر نامہ مختلف کرداروں اور کہانیوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ تاریخ یورپ ہو یا ایشیا، افریقہ ہو یا امریکہ ہر طرف ایسا ہی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
تاریخ یورپ کےمطالعہ سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح زمانہ قدیم سے یہاں بھی کئی دہائیوں پر محیط جنگ و جدل کا میدان گرم رہا ہے۔ جب دو یا دو سے زیادہ ممالک میدان جنگ میں اپنے سرواوئیول کی جنگ لڑ رہے ہوتے تھے تو وہیں تاریخ دان ان تمام واقعات کو محفوظ بھی کررہے ہوتے تھے۔ جیسا کہ تھوسیڈیڈس ایتھنی ایک جنگجو بھی تھا اور تاریخ دان بھی۔ ان جنگوں کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت بھی اپنے قیام کی جنگ لڑ رہے ہوتے تھے۔ تاریخ یورپ کے ابتدائی زمانے میں دو قوتیں بر سرپیکار رہی ہیں جن میں ایران (فارس) اور یونان شامل ہیں۔ یورپی تہذیب و تمدن کی بنیاد اور ماخذ یونانی شہری ریاستوں کی ثقافت پر ہے۔ فارسی اپنی ثقافت اور فنون حرب پر فاخر تھے اور دوسری طرف یونانی بھی اپنی تہذیب و فنون لطیفہ اور فنون سپاہ گری کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے تھے۔
ہم فارس کو اس کی حدود وقیود اورجغرافیائی حیثیت کے تناظر میں اس وقت کی سپر پاور کہہ سکتے ہیں۔ ایرانی سلطنت یونان کے ساحلوں سے لیکر ایشیائے کوچک تک پھیلا ہوئی تھی۔ زمانہ حال کے کئی ایسے ممالک جن کی سرحدیں آج ایران کے ساتھ ملتی ہیں وہ اس وقت ایرانی سلطنت کا حصہ تھے جبکہ دوسری طرف خطہ یونان تھا جو چھوٹی چھوٹی شہری ریاستوں پر محیط تھا جس کے تمام باشندے اپنے آپ کو آزاد اور خود مختار تصور کرتے تھے۔ یونانی اپنے لیڈران کے چناؤ اور زندگی کے ہر شعبہ میں آزاد تھے۔ وہ مکمل طور پر مذہبی آزادی پربھی یقین رکھتے تھے۔ لیکن تعصب پسندی اور غلامی دونوں فریقین کے اندر پائی جاتی تھی۔ پورے ایران کو اگر کوئی ملک یا ریاست اپنا حلیف سمجھتی تھی تو وہ یونان ہی تھا۔ ادھر ایران میں مشرقی تہذیب موجود تھی جو اپنے پھیلاؤ اور اثر و رسوخ پر گامزن تھی۔ تو دوسری طرف یونانی اپنے مخصوص مذہبی اور ثقافتی رنگوں کو لیکر اپنے آپ کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔
جنگ و جدال میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایران کو یونانیوں کے ہاتھوں کئی ایک مقامات پر جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن مجموعی طور ایران اپنی تہذیب و تمدن اور وسیع و عریض پھیلی ریاست کے طور پر قابض و حاکم ہی رہا۔ جب فارسی میدان جنگ میں کمزور پڑتے تو ایرانی سازشیں یونانی ریاستوں میں بھرپور کام کرتی تھی۔ جنگ کے زمانے میں جب یونانی متحد ہورہے ہیں اور خاص طور پر ان کی دو طاقتور ریاستیں سپارٹا اور ایتھنز ایک ہو کر فارس کا مقابلہ کرنے جارہی ہیں تو ایرانی سازشی عناصر یونانیوں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے اور یوں ان کو اندرونی طور پر کمزور کردیتے تھے۔ ایسے وقت میں یونانی زعما اور سیاستدان ایرانی امداد کے سہارے عین جنگ کے درمیان منظر نامہ تبدیل کردیتے تھے جس کا فائدہ ایران کو ہو جاتا۔
پورے یونان میں جنگی لحاظ سے مضبوط ریاستیں صرف دو ہی تھیں جن میں سپارٹا اور ایتھنز شامل تھیں۔ ایتھنز بحری طاقت تھے اور بحری جنگ لڑنے کے ماہر تھے اور دوسری طرف سپارٹنز مضبوط بری فوج رکھتے تھے جوزمینی جنگ لڑنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایتھنز بحری جہاز بنانے اور ان کو جنگ میں بطور ڈھال اور حملہ استعمال کرنے کےاستاد تھے جبکہ سپارٹنز زمینی جنگ میں عظیم مہارتیں رکھتے تھے جن کا اثر ایرانی بھی قبول کرتے تھے۔ بعد میں یہی بری افواج کے جوہر سکندر یونانی نے بھی دکھائے جن کو تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
ہالی ووڈ فلم"300" اس سلسلے میں حقیقت کے عین قریب منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ جب سپارٹن فوج کا جنرل(لیونائڈس) چند ایرانی ایلچیوں کی تضحیک کرتا ہے۔ مذکورہ سربراہ یہ کہہ کر فارسی پیغام رساں کو ایک کنویں میں پھینک دیتا ہے کہ سپارٹا ایک آزاد ریاست ہے اور اس کے غیور اور غیرت مند باشندے کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اس طرح اہل سپارٹا اپنی سر زمین اور وسائل فارسیوں کے حوالے کرنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ اس کے جواب میں ایرانی بادشاہ زر کسس سپارٹا پر چڑھائی کی غرض سے ایک عظیم فوج لے کر سپارٹا کا رخ کرتا ہے۔ جبکہ سپارٹنز بھی اپنے دفاع کی خاطر اپنے بہترین سپاہیوں کے ہمراہ میدان جنگ کی طرف مارچ کرتے ہیں۔ اسی دوران خفیہ ایرانی سازشی عنصر ایک یونانی سیاستدان کو مکمل ایرانی مدد اور اثر و رسوخ کی یقین دہانی کرواکر ایک سازش کا حصہ بنا لیتا ہےجو بعد میں بے نقاب ہوتی ہے۔ تین سو سپارٹنز اپنی سر زمین کے دفاع اور اپنی آزادی کو قائم رکھنے کی خاطر اپنے سے کئی گنا بڑی ایرانی فوج کے ساتھ لڑ پڑتے ہیں۔ آخر میں سوائے ایک سپارٹنز کے سارے کے سارے فوجی مارے جاتے ہیں -
سپارٹنز کے بعد ایتھنز بطور ایک طاقت کے سر اٹھاتے ہیں اور نہ صرف فارسی اثر و رسوخ کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں بلکہ وہ دوسری یونانی ریاستوں پر بھی حاوی ہوجاتے ہیں۔ ان کی اس طاقت کے پیچھے مضبوط بحری فوج اور معیشت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ریاست مقدونیہ کا حکمران فلپ تاریخ کے منظر پر جلوہ گر ہوتا ہے اور سارے یونان کو اپنے ماتحت کرلیتا ہے۔ فلپ کے منصوبے میں ایران پر یورش شامل حال رہتی ہے لیکن وہ کسی قاتل کے خنجر ہلاک ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا بیٹا سکندر اعظم یونانی سلطنت کو اور مضبوط کرنے کی غرض سے 334 ق م میں ایران پر چڑھائی کردیتا ہے اور فتوحات کی ایک فہرست کے ساتھ تاریخ اس دنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔