Bapsi Sidhwa
بیپسی سدھوا
بیپسی سدھوا انگریزی زبان میں پاکستانی ادب کی نمائندہ ہیں۔ وہ پاکستانی ادب کی ایک متحرک آواز ہیں۔ سدھوا اپنی بصیرت اور اکثر مزاحیہ ناولوں سے قارئین کے دلوں کو موہ لینے والی مصنفہ ہیں۔ وہ صرف ایک معاشرے یا ثقافت کی لکھاری نہیں بلکہ ان کا کام سرحدوں سے ماورا ہے۔ وہ ثقافتی تنوع، سماجی عدم مساوات اور انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ سدھوا کی مخصوص خصوصیات میں ان کی واضح کہانی، ناقابل فراموش کردار اور ان میں زندگی کا سانس لینے کی صلاحیت اور سماجی انصاف کے لیے ان کی وابستگی شامل ہیں۔ یہ چیدہ خصوصیات انہیں دور حاضر کے لکھاریوں میں ایک پسندیدہ آواز بناتی ہیں۔ آج پاکستان کے تمام جید مصنفین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔
بیپسی انیس سو اڑتیس میں نوآبادیاتی ہندوستان میں ایک پارسی خاندان میں پیدا ہوئے ہوئیں۔ ان کا بچپن نوآبادیاتی ہندوستان کی ثقافت کے درمیان گزرا۔ یہ کثیر ثقافت ایک ایسا تجربہ تھا جو بعد میں ان کی تحریر کو مفصل اور متنوع نقطہ نظر کی گہرائی کے ساتھ متاثر کرتا رہا۔ ان کا تعلیمی سفر کراچی سے شروع ہوا اور بمبئی (موجودہ ممبئی) کے ولسن کالج میں جاری رہا۔ وہاں سے انہوں نے نفسیات میں ڈگری حاصل کی۔ جب کہ ان کی رسمی تعلیم انسانی ذہن پر مرکوز تھی۔ تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ان کا حقیقی جذبہ کہانی سنانے میں تھا۔ یہ جذبہ ایک ایسے کیریئر میں آشکار ہوا جس نے روایتی حدوں کو کراس کیا۔ سدھوا نے ایک عام پیشہ ورانہ راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک مصنفہ، صحافی اور استاد کے طور پر اپنی جگہ بنائی۔ اپنی پوری زندگی میں انہوں نے اپنی منفرد آواز سے ادبی منظر نامے کو تقویت دیتے ہوئے مختلف اشاعتوں میں مضامین اور کہانیوں کا حصہ ڈالا۔
انگریزی زبان میں پاکستانی ادب کیلئے سدھوا نے اپنے لیے ایک منفرد مقام بنایا۔ سدھوا نے جب کراچی میں آنکھ کھولی تو اس وقت بر صغیر برطانیہ کی کالونی تھا۔ سدھوا کی ابتدائی زندگی نے انہیں ثقافتوں اور روایات سے روشنا س کروایا۔ اس کثیر الثقافتی پرورش نے ان کی تحریر پر گہرا اثر ڈالا، جس نے اکثر شناخت، تعلق، اور متنوع سماجی موضو عات کو سمجھنے میں مدد دی۔ سدھوا کا ادبی سفر رسمی تربیت سے نہیں بلکہ کہانی سنانے جیسے جذبے سے شروع ہوا۔ ممبئی کے ولسن کالج سے سائیکالوجی میں ڈگری کے باوجود ان کی اصل وجہ کہانیوں کو تیار کرنے میں تھی۔ انہوں نے روایتی پیشہ ورانہ راستے کی پیروی نہیں کی بلکہ ایک بڑے کیریئر کو اپنایا۔ سدھوا نے ایک مصنف، صحافی اور استاد کی حیثیت سے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ ان کی تخلیقی روح مختلف اشاعتوں میں شائع ہونے والے مضامین اور کہانیوں کے ذریعے نظر آتی ہے۔
بیپسی سدھوا کی تحریر اپنی بھرپور وضاحتوں اور دلکش داستانوں کے لیے جانی جاتی ہے جو قارئین کو ان کے کرداروں کی زندگی میں کھینچ لاتی ہے۔ ان کے کردار لازوال ہوتے ہیں۔ وہ گہرائی اور پیچیدگی کے ساتھ کردار کوتخلیق کرنے میں مہارت رکھتی ہیں جس سے قارئین کو ان کی خوشیوں، جدوجہد اور منفرد شخصیات سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ سماجی تبصرہ کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ سدھوا کا کام اکثر سماجی مسائل جیسے طبقاتی تقسیم، خواتین کی حالت زار، اور تقسیم کی میراث سے نمٹتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کو ان مسائل پر تبصرہ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ثقافتی کھوج سدھوا کے قریبا ہر کام میں جھلکتا ہے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں ایک پارسی خاندان میں پرورش پانے کے بعد سدھوا کی تحریر ثقافتی تنوع کے موضوعات اور مختلف سماجی ماحول کو تلاش کرتی ہے۔
مزاح اور گرمجوشی دو ایسی خصوصیات ہیں جو مصنفہ کے افسانوں میں ہر وقت موجود ہیں۔ سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ سدھوا کی تحریر اکثر مزاح اور گرمجوشی سے بھری ہوتی ہے جس سے پڑھنے کا ایک دلکش تجربہ ہوتا ہے۔ خواتین کی زندگیوں پر توجہ مرکوز کیے رکھنا آپ کا ایک خاصہ ہے۔ ان کے بہت سے ناولوں میں خواتین کے تجربات شامل ہیں۔ ان کی خواہشات، حدود، اور پدر معاشرے میں درپیش چیلنجوں کی کھوج کرتے ہیں۔ ذاتی تجربات بھی مصنفہ کے کاموں میں صاف نظر آتے ہیں۔ سدھوا کے پولیو کے ساتھ اپنے تجربات اور پاکستان میں ایک پارسی خاتون کی حیثیت سے زندگی ان کی کہانیوں میں صداقت اور گہرائی کا اضافہ کرتی ہے۔ آپ میں ایک تعاون کرنے والی روح پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے ناول "کریکنگ انڈیا" پر مبنی فلم "ارتھ" کے لیے انکرین پلے کے ساتھ مل کر لکھا۔ اس میں مختلف میڈیمزکے لیے اپنے کام کو تعاون کرنے اور ڈھالنے کی اپنی خواہش ظاہر کی گئی۔
کریکنگ انڈیا، این امریکن براٹ، دا کرو ایٹرز، لا فیانسے پاکستانیز، دا برائڈ، واٹر، دیئر لینگویج آف لو، سٹی آف سن اینڈ سپلینڈر، مسٹر کینڈی وغیرہ سدھوا کی تخلیقات ہیں۔ پاکستان کا شہر لاہور، جہاں وہ پلی بڑھی، ان کے بہت سے ناولوں کا پس منظر ہے۔ یہ ناول 1947 میں تقسیم ہند کے ہنگامہ خیز واقعات کا مجموعہ ہے جن کا ان نے بچپن میں مشاہدہ کیا تھا۔ کریکنگ انڈیا (اصل میں آئس کینڈی مین) ان کا سب سے مشہور ناول ہے اور ان میں لینی نامی نوجوان پارسی لڑکی کی معصوم آنکھوں کے ذریعے تقسیم کو دریافت کیا گیا ہے۔ "دی کرو ایٹرز"اور "پاکستانی دلہن" دوسرے ناول ہیں جو تقسیم کے اثرات کو چھوتے ہیں۔ "پارسی کمیونٹی" سدھوا کا پارسی زرتشتی ورثہ ایک اور بار بار چلنے والا موضوع ہے۔ وہ جنوبی ایشیا میں ان اقلیتی مذہبی کمیونٹی کے رسوم و رواج اور تجربات کا مطالعہ کرتی ہے۔
کاملہ شمسی ایک وسیع تر کینوس کی کھوج کرتی ہیں جس میں تقسیم شامل ہے لیکن ہجرت، عالمگیریت، اور نوآبادیاتی دنیا میں شناخت کی پیچیدگیوں کے موضوعات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ ان کے کردار بین الاقوامی تجربات کے حامل ہوتے ہیں اور روایت اور جدیدیت سے جوڑتے ہیں۔ سدھوا میں بھی یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ دونوں کے انداز بیاں پر بات کی جائے تو سدھوا زیادہ تر اپنے کرداروں پر منحصر ہیں۔ ان کی کہانیاں اکثر نوجوان یا پسماندہ کرداروں کے نقطہ نظر سے سامنے آتی ہیں جو سماجی مسائل سے دوچار ہیں۔ جبکہ شمسی زیادہ فکری اور تہہ دار انداز کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں۔ ان کی داستانیں اکثر تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق سے جڑی ہوتی ہیں جو کرداروں کی جدوجہد پر گہرے غور و فکر کا باعث بنتی ہیں۔
نقطہ نظر میں بھی دونوں مصنفین میں تھوڑا اختلاف ہے۔ سدھوا اکثر لاہور کی ایک پارسی کمیونٹی میں پرورش پانے والے اپنے تجربات کو سامنے لاتی ہیں۔ ان کا اندرونی نقطہ نظر پاکستانی معاشرے اور رسم و رواج کے بارے میں ان کی تصویر کشی کرتا ہے۔ جبکہ کاملہ شمسی پاکستانی ورثے سے باخبر ہونے کے باوجودان کے کردار اکثر بین الاقوامی سفر وں میں مشغول ہیں اور عالمی شناخت کی پیچیدگیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔