Augustus
آگسٹس
رومن جنرل جولیس سیزر کی موت کے بعد پورے روم میں سخت بد امنی پھیل گئی۔ سلطنت کے حالات میں کشیدگی اور ابتری آگئی۔ قاتلان سیزر جن میں نمایاں نام بروٹس کا تھا اپنے عظائم میں کوئی کامیابی نہ حاصل کرسکے۔ بلکہ سیزر کے ایک دوست اینٹنی کا سینٹ/کونسل میں عمل دخل بڑھ گیااور یوں قاتلان سیزر کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ تمام سازشی سینٹرز اپنے آپ کو آزاد کنندگان روم کہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے روم کو سیزر کی آمریت اور اسکے بادشاہت کی طرف بڑھتے قدموں سے نجات دلائی تھی۔ لیکن اتناکچھ کرگزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن بحال نہ کرسکے۔ فلپی کے مقام پر ہونے والی جنگ میں بروٹس کو اینٹنی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہی پر اس کو قتل کردیا گیا۔
سیزر کے بعد اس کا ایک بھانجا آکٹا ویانس سیزر کے منصب کےحق دار، دعویدار اور وارث کے طور پر ابھرا۔ اس کی عمر سیزر کی موت کے وقت صرف انیس برس تھی اور وہ ایپائرس میں قیام پذیر تھا۔ اپنی فہم وفراست اور ہوشیاری کی وجہ سے وہ روم کا حکمران بنا۔ خداداد صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئےآکٹا ویانس نے اپنے حریفوں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور یوں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرلی۔ حصول حکمرانی کے باگ دوڑ میں اس نوجوان کو کئی سازشی عناصر نے اپنی طرف مائل کرنے اور ورغلانے کی کوششیں کی لیکن وہ چوکنا ہو کر ان ساری سازشوں اور نشیب و فراز سے بحفاظت نکل گیا۔ اقتدار کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اس نے اپنے لیےآگسٹس کا لقب اختیار کیا۔
برسر اقتدار آتے ہی آگسٹس نے سیزر کے نام اور ساکھ کو بچانے کی بھر پور کوششیں شروع کردیں۔ اس کے مقاصد حکومت میں یہ باتیں شامل تھا کہ سیزر کے نام سے بدنامی کو ختم کیا جائے؛ اس کی تمام پالیسیوں کو قائم رکھا جائے اور قاتلان سیزر کو انجام تک پہنچایا جائے۔ ان اقدام کے تکمیل میں اسے کامیابی ملی کیونکہ افواج روم سیزر سے محبت کرتے تھے اور اس کی عظمت کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ سیزر کے بعد وہ آگسٹس کوبھی اپنا حکمران اور اینٹنی کو ایک قابل سپہ سالار مانتے تھے۔ آگسٹس کے ساتھ اینٹنی اور لےبیڈس دونوں شریک اقتدار تھے۔ اینٹنی کے ہاتھ میں فوج کی کمان تھی لیکن لےبیڈ س کو ایک وقت پرشرکت اقتدار سے علیحدہ کردیا گیا۔
اینٹنی اور آگسٹس نے باہمی مشاورت اور صلح صفائی سے سلطنت کو آپس میں بانٹ لیا۔ طے یہ ہوا کہ اینٹنی کے زیر فرمان مشرق کے تمام علاقے ہوں گے اور آگسٹس کے حصے میں روم اور مغرب کے حصے آگئے۔ اصولی طور پر اینٹنی کا پلہ بھاری تھا کہ کیونکہ مشرق کے صوبے زرخیز تھے جس سے معیشت کافی مضبوط تھی لیکن آگسٹس کے پاس روم اور مغرب کی کلی حکومت تھی جس کا اسے بعد میں فائدہ ہوا۔ اینٹنی کے بعد آگسٹس کو ایگرپا بطور سپہ سالار ملا۔ وہ ایک قابل اور ماہر جنرل تھا جو فن حرب اور سپہ گری میں خاص مہارت رکھتا تھا۔ ان خصوصیات کے علاوہ ایگرپا عملی طور پر کئی جنگوں میں اپنی بہادری، شجاعت اور بلند حوصلہ ثابت کر چکا تھا۔
تھوڑے عرصے بعد آگسٹس اور اینٹنی کے درمیان بغض و حسد کی آگ بھڑک اٹھی جس کو بجھانے کی تمام کاوشیں رائیگاں گئیں اور دونوں کا سامنا یونان کے مشرقی ساحل ایکٹیم پر ہوا۔ اینٹنی اپنی فوجی قوت، وسعت تجربہ اور بہادری کے باو جود آگسٹس کے سپہ سالاروں کے سامنے زیر ہوگیا۔ اپنی مصری ملکہ کے ہمراہ اینٹنی سکندریہ(الیگزینڈریہ) پناہ گزین ہوا لیکن آگسٹس کی فوج نے اس کا تعاقب وہاں بھی کیا۔ اینٹنی اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوگیا جبکہ اسکی مصری ملکہ نے زہر کھا لیا۔ اینٹنی کے بعد سارا روم اور مشرق و مغرب آگسٹس کے ڈائریکٹ کنٹرول میں آگیا۔
اب آگسٹس اپنے اختیارات میں بالکل متعلق العنان اور کسی بھی سیاسی و فوجی اتحادسے آزاد تھا۔ امن و امان کے دوبارہ قیام کے بعد آگسٹس نے طرز حکومت اور نظام سلطنت کی طرف خوب توجہ تھی۔ سلطنت کی وسعت، دیر پا قیام اور استحکام کے لیے اس کے پاس تین راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ جولیس سیزر کی تجاویز اور فن حکومت کو اپنا لے۔ سینٹ کی وسعت کو ویسے ہی رکھے اور بیرون روم باشندوں کی شہریت کو بحال رکھے۔ جس طرز حکمرانی کو سیزر نے نافذ کرنا چاہا تھا ویسے ہی اس پر عمل کرے۔ دوسرا وہ جمہوریت کو بحال کردے یا تیسرا یہ کہ ان دونوں سے ہٹ کر ایک نیا طرز حکمرانی اختیار کرے۔ تاہم آگسٹس کی طبیعت میں قدامت پسندی تھی اور وہ انقلاب سے خائف رہتا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں جولیس سیزر کا انجام ہر وقت موجود تھا۔
آگسٹس نے ایک ایسا طرز حکمرانی اختیار کیا جس میں سینٹ کے بیشتر اختیارات کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کی حکومت پر قدیم رومی روایات کا اثر و رسوخ برقرا ررہا۔ انقلابی روح کو مخفی رکھنے کی خاطر آگسٹس نے سیزر کی طرح کوئی نیاخطاب اختیار کیا اور نہ ہی اپنے لیے بادشاہ، ڈکٹیٹر یا شہنشاہ وغیرہ کا خطاب اختیار کیا۔ ایسا کرنے پر اس نے رومیوں کے دل جیت لیے اوراپنی طاقت میں ایسا اضافہ کیا کہ تمام رعایا اور سینٹ اس کے اشارے پر چلنے لگے۔ اہل روم میں مقبولیت کیلئے آگسٹس نے ڈکٹیٹر ز یا بادشاہوں جیسا طرز زندگی نہ اپنایا بلکہ وہ صرف امراء کی طرح رہتا۔
ان اقدامات کے نتیجے میں آہستہ آہستہ تمام عہدے اس کے قبضے میں آگئے اور خود کو اس نے کونسل اعظم یا ٹریبیون فار لائف مقرر کر الیا۔ ساری فوج، قوانین، عدلیہ اور نظام عدل اس کے زیر فرمان آگئے۔ مذہبی عظمت بھی اسی کے حصے میں آئی۔ آگسٹس کے دور اقتدار میں مشرقی روایات اور مذہبی رنگ روم پر چڑھنے لگا۔ اس چیز کے خاتمے اور رعایا کے جذبوں کی ترجمانی کیلئے اس نے ٹوٹے ہوئے مندروں اور عبادت گاہوں کی دوبارہ تعمیر اور بحالی کے احکام جاری کیے اور دیوتاؤں کے پوجا پاٹ کو از سر نو رائج کرایا۔ رعایا میں مقبولیت کی وجہ سے ایک رومن شاعر نے یہ تک کہہ دیا کہ آگسٹس ایک دیوتا ہے جو لوگوں میں آکر جلوہ افروز ہوا ہے۔
آگسٹس کے دور میں سلطنت روم کی مغربی سرحدیں مزید پھیل گئیں۔ اس کی جغرافیائی حدیں دریائے رائن اور ڈینیوب تک جاملی۔ لیکن جرمن قوم تھوڑے عرصے کیلئے روم کے قبضے میں رہی۔ جلد ہی انہوں نے آگسٹس کی فوج سے آزادی حاصل کرنے اورجبر و ظلم کا بدلہ لینے کی خاطر شمال مغربی جرمنی کی دلدلی زمین تباہ کردیا۔ یہ صرف ایک ہزیمت اور رزسٹنس تھی جس کا سامنا آگسٹس کی فوج کو اٹھانا پڑا۔ آگسٹس نے جانشینی کی خاطر تین شادیاں کیں لیکن بد قسمتی سےاس کی موت تک یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ بے پناہ اختیارات کی وجہ سے آگسٹس جس کو چاہتا اپنا جانشین مقرر کرسکتا تھا۔ لہذا ایسا ہی ہوا۔ ٹائی بے ریس آگسٹس کا جانشین مقررہوا۔