Mustafa Kamal Ataturk
مصطفی ٰکمال اتا ترک
مقدونیہ کے شہر سیلونیکا میں علی رضا اور زبیدہ کے ہاں 1881 میں پیدا ہونے والے مصطفیٰ نے ترک قوم کو بیرونی عالمی طاقتوں کے تسلط سے ملک آزاد کروا کے دیا، خلافت کے نام پر بادشاہت جو برائے نام ہی رہ گئی تھی بالآخر ختم کر دی اور اپنی قوم کو تمام تر رواجی، تاریخی پابندیوں، ضابطوں سے بھی آزاد کر دیا یہ درست تھا یا غلط الگ بحث ہے لیکن ترک قوم کی ایک نئی زندگی کا آغاز مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں ہوا۔
جدید ترک کا معمار، قوم کا اتاترک کیا تھا؟ کون تھا؟ کیسا تھا؟ اس نے کیا کیا؟ کیسے کیا؟ سب کچھ بہترین طریقے سے پیٹرک کنراس نے تحریر کیا اور اسے ہماری قومی زبان میں محترمہ ہما انور سے ترجمہ کروا کے فرخ سہیل گونندی نے اپنے ادارہ جمہوری پبلیکیشنز سے شائع کیا، یہ ادارہ نایاب اور بیش قیمت کتابوں کی اشاعت میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔
اس کتاب کے مصنف پیٹرک کنراس (Patrick Kinross) کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ تھے اپنے شوق سے صحافت میں آئے، دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ مشرق وسطیٰ میں انٹیلی جنس افسر تعینات ہوئے، پھر قاہرہ میں برٹش سفارت خانہ میں پریس کونسلر رہے۔ انہوں نے بحیرہ روم کی سیاحت کی اور کئی کتابیں لکھیں، ترکی کا متعدد بار سفر کیا اور پہلے یہ کتاب Ataturk The Rebirth of a Nation جبکہ بعد میں The Ottoman Centuries تحریر کی۔
مصطفیٰ اپنے ہمنام استاد کی طرف سے دئیے گئے اضافہ سے مصطفیٰ کمال بن گئے، انہوں نے فوج میں بحیثیت لیفٹیننٹ شمولیت اختیار کی اور پھر کرنل کے عہدہ تک پہنچے یہاں سے انکا دوہرا سفر ملک کی جنگ آزادی اور خلافت سے بغاوت کا سفر شروع ہوا۔ سلطنت عثمانیہ میں خلافت ملوکیت کی بھی بدترین شکل اختیار کر چکی تھی یہ ملوکیت عوام پر تسلط قائم رکھنے کے لئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتی رہی۔
ہر دور میں خلفاء نے ترقی کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کو حرام ہی قرار دیئے رکھا، پرنٹنگ پریس کو شیطانی مشین قرار دیا اور آخری حد تک اس کا استعمال روکے رکھا، سرجری کو کفر قرار دیا اور جسموں کے چیر پھاڑ کو غیر اسلامی کیا گیا۔ قدرتی بیماریوں، وباؤں، چیچک وغیرہ کے خلاف حفاظتی ٹیکہ جات کو حرام قرار دیا، توہم پرستی اور عقیدے کا یہ حال تھا کہ سٹیم سے چلنے والے انجن والی کشتیوں کی بھی مخالفت کی، ہر ترقی کو نہائت پس و پیش کے بعد مجبوری میں ہی اپنایا گیا۔
ایسی صورت حال میں خلافت کے نام پر خاندانی ملوکیت نے اپنی نااہلیوں اور عیاشیوں کے باعث ملک پر مختلف ممالک کو حملہ آور ہونے کا موقع مہیا کیا، مختلف علاقوں پر قبضے ہو چکے تھے خلیفہ اپنے دارالحکومت کی حفاظت کیلئے بھی اپنے اتحادی ممالک کی افواج کی حفاظت میں تھے۔ ایسے میں ترک فوج کے افسر مصطفٰے کمال نے اپنی دفاعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ قوت بنائی اور ایک ایک کر کے علاقے غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانا شروع کیے، انقرہ میں حکومت قائم کر دی، خلافت نے ان کو غدار قرار دے دیا تھا۔
یہ دو متوازی حکومتیں بھی چلیں اور بالآخر خلیفہ کے ترکی فرار ہو جانے کے بعد پورے ملک میں آزاد ترکی کی حکومت مصطفیٰ کمال کی قیادت میں قائم ہوگئی۔ مصطفےٰ کمال پاشا اس ملک کو آزاد کروانے والے محسن تھے، انہوں نے تاریخی شہر استنبول سے دارالحکومت کو انقرہ منتقل کر دیا یہ بہت بڑا قدم تھا۔ دراصل عوام خلافت یعنی خاندانی ملوکیت کی خرابیوں، نااہلیوں اور عیاشیوں سے تنگ تھے۔
اس دوران انہوں نے غیر ملکی قابضین کی اپنے ملک میں موجودگی سے ایک مختلف طرز زندگی، اور مختلف معمار زندگی کا مشاہدہ کر لیا تھا اب مذہب کا نام غلط طور پر استعمال کر کے عوام پر عائد پابندیوں کو قائم رکھنا ممکن نہ تھا، لیکن ان حکومتی انتظامی خرابیوں کو دور کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے اس کے بالکل الٹ دوسری حد کو چھو لیا۔ جہاں مذہب کے نام پر قائم ہر قانون، ہر رسم اور ہر رواج کو ایک ایک کر کے آزاد خیال سیکولر قوانین سے بدل دیا گیا۔
مصطفےٰ کمال نے یونان، روس، برطانیہ، فرانس وغیرہ سے اپنے علاقے واپس لئے سب کیساتھ باوقار تعلقات برابری کی سطح پر قائم کرنے کی کوشش کی، اتاترک نے ایک نیا ترکی تخلیق کیا اس میں اپنی سوچ اور نظریات کے مطابق تربیت یافتہ رہنما، ادارے اور لبرل تناظر میں آگے بڑھتا معاشرہ ترتیب دیا، اتاترک نے اپنے نوجوانوں میں مضبوط قومی تصور پیدا کیا۔ قومی تشخص کی بہتری کے لئے قومی زبان اور نیا رسم الخط رائج کیا۔
انہوں نے اپنے اقدامات اور پالیسیوں سے مغرب کے قابل اعتبار حلیف کی حیثیت حاصل کی، اپنے روائیتی دشمنوں کو بھی برابری کی سطح پر ریاستی سفارتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا۔ مضبوط اور پر امن ترکی سے پر امن مشرق وسطیٰ اور پر امن یورپ کو یقینی بنایا۔ ترکی کو اقتصادی ترقی کے راستے پر ڈالا اور قوم کو اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھایا، انہیں اس وطن کو چلانے کے لئے ان کے ٹیکس کی اہمیت سے اگاہ کیا اور ہر ایک کو وطن کا ذمہ دار شہری ہونے کا احساس دلایا یہ تھی ترکوں کے باپ مصطفٰے کمال اتاترک کی کامیابی۔
مصطفیٰ کمال بلاشبہ آزاد ترک کے بانی اور خلافت کے نام پر قائم خاندانی ملوکیت سے ترک قوم کے نجات دہندہ تھے، مصطفیٰ کمال پاشا نے ملک کو جمہوریہ تو قرار دیا لیکن اس میں جمہوریت قائم نہیں کی بلکہ ملوکیت اور جمہوریت کے درمیان کی طرز حکمرانی متعارف کروائی، پارلیمنٹ تشکیل دی اور وزیراعظم کے زیرنگرانی ایک حکومت بنائی لیکن طاقت کا مرکز صدر ہی رہا کیونکہ وہ خود صدر تھے۔
وزیراعظم کو مقرر کرنے یا ہٹانے کا اختیار انہی کے پاس تھا، پارلیمنٹ بھی ایک جماعتی تھی دوسری کوئی جماعت پارلیمنٹ میں نہ تھی صرف وہ چند ارکان جن کو کابینہ اور حکومت مشاورتی کمیٹیوں میں نہ لیا جاتا وہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے لیکن صرف اتنا جتنی انکو اجازت دی جاتی، یہ آمریت تھی ایک فوجی سربراہ کی آمریت جس نے بارہ سال کی عمر میں درست فیصلہ کیا تھا کہ ترکی میں اشرافیہ فوجی افسر ہیں لہٰذا مجھے کامیاب زندگی کے لئے فوج میں جانا چاہیئے۔
مصطفیٰ کمال نے ایک آمر کی خصوصیت کے اظہار کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا، اپنی جنگ آزادی کے ساتھیوں اور دوستوں کو بھی اوپر نہیں آنے دیا ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں کیں۔ ایک سازش کے مقدمہ کا سہارا لے کر کرنل عارف، شکرو، عبدالقدیر اور گیارہ لوگوں کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ پھر انقرہ ٹرائل کے نام پر حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں پچاس لوگوں پر مقدمات قائم کئے گئے۔
یہ پچاس لوگ وہ تھے جو کسی بھی سطح پر اپنی مخالف رائے کا اظہار کرتے تھے، اس مقدمے کے لئے قائم ٹربیونل مکمل کٹھ پتلی تھا اور مصطفےٰ کمال کی ہدایات کے طابع تھا۔ اس کاروائی سے یونین اینڈ پراگریسو پارٹی جس میں انکے سابقہ دوست شامل تھے چھٹکارا پایا گیا۔ اس ٹربیونل کی کاروائی کا طریقہ کار یہ تھا ملزمان کو تب تک کے لئے مجرم فرض کر لیا گیا جب تک وہ خود کو بے گناہ ثابت نہ کر دیں اور ایسا نہ کر سکنے پر ان کو سزائیں دی جاتیں۔
جج صاحبان کی نگاہوں میں ان لوگوں کا حکومت کی حمایت نہ کرنا ان کے جرم کا خاصا بڑا ثبوت تھی۔ ان ٹرائلز میں کئی لوگوں کو جلاوطنی کی سزا ملی، رؤف پاشا اور چھ دوسرے لوگوں کو دس سال کی قید کی سزا ملی، جاوید، ناظم اور دوسرے دو یونینسٹ رہنماؤں کو موت کی سزا ملی۔
مصطفےٰ کمال پاشا کی جدوجہد آزادی کے رفقاء کاظم کارابکر، علی فواد، رؤف پاشا، ڈاکٹر عدنان، کرنل عارف، رفعت پاشا کوئی بھی اب انکے ہمراہ نہ تھا۔ مصطفےٰ کمال کسی کو اپنی کامیابیوں سے حصہ دینے کو تیار نہ تھے، البتہ عصمت انونو کو چودہ سال تک اپنا کٹھ پتلی وزیراعظم رکھا یہ اپنی محدود صلاحیتوں کیساتھ مکمل کٹھ پتلی تھے، انکی کابینہ میں بھی مصطفیٰ کمال ہی اپنی مرضی سے تبدیلیاں کرتے اور حکومت کرتے تھے۔
چودہ سال بعد عصمت انونو شراب کی بھٹیوں کے متعلق ایک اقتصادی پالیسی پر بول پڑے اور مستعفی ہونے پر مجبور کر دئیے گئے انکی جگہ مصطفیٰ کمال نے جلال بیار کو وزیراعظم مقرر کیا، تاہم عصمت انونو مسلسل معافی مانگنے میں لگے رہے، خطوط لکھتے رہے اور مختلف پارٹیوں میں ملتے رہے۔ بالآخر وہ معافی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور مصطفیٰ کمال سے تعلقات بحال ہو گئے، اگلے سال جب اتاترک قریب المرگ تھے تو انہوں نے عصمت انونو کو ہی اپنا چانشین صدر نامزد کیا۔
ترک قوم بجا طور پر مصطفیٰ کمال پر فخر کر سکتی ہے کیونکہ جب خلافت یعنی خاندانی ملوکیت کی عیاشیوں اور نااہلیوں سے ملک کے حصے بخرے ہو رہے تھے دشمن حملہ آور ہی نہ تھے بلکہ قابض تھے تو ایسے میں مصطفیٰ کمال انکے لیے نجات دہندہ بن گئے، ملک آزاد کرایا اور ترقی کے راستے پر ڈال دیا، البتہ ملک سے تمام مذہبی قوانین و رسوم کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک کو مکمل سیکولر اور لبرل بنا دیا۔
جدید مغربی رسوم رواج کو فروغ دیا۔ موسیقی، ڈانس اور شراب کی مخلوط محفلوں کے انعقاد کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی، شراب نوشی کو عملی طور پر جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بنا دیا گیا۔ ان کاموں پر ترک قوم اپنے اس رہنما کو کس نظر سے دیکھتی ہے اس میں ہر طرح کی رائے ملتی ہے۔
بطور شخصیت مصطفیٰ کمال میں کوئی دوسری ایسی خوبی نہ تھی جسے ہم پاکستانی قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مدمقابل کھڑا کر کے مشعل راہ سمجھ سکیں لیکن اپنی طرز حکمرانی اور لبرل معاشرتی اقدامات کی وجہ سے اتاترک ہمیشہ ہمارے آمروں کی آئیڈیل شخصیت رہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال ذاتی بد اعتدالیوں کا بھی شکار تھے اور ریاستی معاملات میں بھی بے اصول اور خود غرض فوجی افسر تھے جنہوں نے اپنے علاوہ باقی سب کو ان کے نظریات سمیت بے وقت اور فضول ہی سمجھا۔
ترک جمہوریہ دراصل کنٹرولڈ جمہوریت تھی جہاں آپوزیشن بھی واحد حکومتی پارٹی کا ہی ایک حصہ تھی جو کہ حکومت کے اقدامات کے صرف طریقہ کار پر محدود تنقید کر سکتی تھی، مصطفیٰ کمال ملک کے صدر تھے اور ساتھ ہی حکومتی پارٹی کے بھی صدر تھے۔ بہرحال وطن پرست، قوم پرست مصطفیٰ کمال یقیناََ "اتاترک" تھے۔
ایک مرتبہ ہنگری کے ایک سفارت کار نے ان سے دوران گفتگو کہا "لیکن آپکی کوئی اولاد نہیں ہے" مصطفیٰ کمال پاشا نے جواب دیا "تمام ترک میری اولاد ہیں" پھر انہوں نے کہا "میں مقدونی ہوں لیکن میں علاقائی حق کا بھی کوئی دعویٰ نہیں کرتا" یہ درست ہے کہ مصطفیٰ کمال پاشا کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے متعدد بچوں خصوصاََ بچیوں کو گود لیا، اور انکی پرورش کے اخراجات خود برداشت کئے، ان میں سے ایک صبیحہ گورکچن تھی جو ترکی کی پہلی خاتون پائلٹ بنی۔