Khayal e Atish Aur Rootha Campus
خیال آتش اور روٹھا کیمپس
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ جہاں جہاں ہم رہتے وہاں کی در دیوار کے حجم و خدوخال تک ہماری ذہنی پرورش پہ غالب اثر کرتے جاتے۔ یہ معاملہ شدید شد و مد سے ایک برس سے ہمیں درپیش۔ اس سے منسوب رام لیلا کو بعد میں بیان کرتے پہلے یہ دیکھتے کہ کاغذ قلم لیے ایک سال سے پنجاب یونیورسٹی میں پناہ گزیں ہیں، تو یہاں کے غالب تناؤ سے کتنے گھاؤ آچکے۔
تعلیمی درسگاہیں کسی بھی دھرتی کا وہ مجسم پیکر ہوتیں کہ جس کی انگلیوں تلے وہاں کی تہذیب و تمدن، فکر و اذہان کی نبضیں دھڑکا کرتیں۔ وہاں کی ایک ایک راہداری اس دھرتی کے چہرہ کی تصویر بھرے ہوتی۔ پنجاب یونیورسٹی کا یہ چہرہ جہاں ایک طرف چاک و ناچاک ملکی تنوع کا نمائندہ ہے، وہاں دوسری جانب یہ اپنے اندر شدید ہیجان انگیز کیمیا رکھے ملتا ہے۔ جس کی وسعتیں اور گہرائیاں اپنے اندر کئی خستہ حال باب کھولے ہوے ہے۔
کیمپس کے خستہ حال نظام تعلیم سے بہت پرے آج یہاں کے متعلمین کے بارے کچھ گفتگو کرتے۔ آپ کمپس کا کوچہ در کوچہ مطالعہ کرکے دیکھ لیں آپکو فقط تین قسم کے نو آموز انڈر، اوور اور مس اوور گریجویٹ نظر آئیں گے۔ ایک وہ جو اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم و فکر میں مصروف، دوسرے وہ جو کچھ نہیں کرتے اور تیسرے بھی وہی جو کچھ نہیں کرتے۔
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
خیر ان تمام دوستوں میں ایک چیز ہمیں ڈھونڈنے سے بھی پہلے مل جائے گی وہ ہے یہاں کا ہیجان اور تناؤ۔ آپ صبح صبح کسی ناشتہ کی ٹیبل پہ بیٹھ جائیں آپکی جہاں تک نظر جاے گی لٹکے ہوے خشک مسمار چہروں کے جیسا سب کچھ نظر آئے گا۔ رونق و شادابی کے بارے تو خیر کیا منھ دیکھی بات کرنی۔ آپ ہاسٹلز کے کسی بھی کمرہ پہ دستک دے کے دیکھیں ہر کمرہ میں آپکو کوئی نہ کوی کسک جھیلتا ملے گا۔
گویا سارے خود اذیتی کی سیلیبریشن سے انٹرٹینمنٹ کی کنڈلی نکالنے میں لگے صرف اس استدلال یہ کہ، سب دکھی ہوتے، تو ہم بھی ہوتے۔ مطلب تو یہ ہوا پھر کہ وہ ہوتے ہوتے نہ ہوتے، تو یہ نہ ہوتے ہوتے بھی ہوتے۔ ہاسٹلز کم اور ہاسپٹل زیادہ لگتے جہاں ادویات و علاج نہ بکتا ہے نہ ملتا ہے۔ یہ فقط یہاں کی ناقص کنڈیشننگ اور کھوٹی تعلیمی بد انتظامی کا عکس نہیں بلکہ اس پوری دھرتی کا چہرہ ہے۔ یہاں کا حال ہے، یہاں کا قریب و بعید ہے۔ جو داغدار ہونے سے زیادہ ضعیف ہے۔ جو دل ناامید و ناکام سے دور فرسٹریشن کی مصیبت میں انرجیز ضائع کرنے میں تن من دھن پہ جوے کی بازی لگاتا ہے۔
خیر ہم محض ان کیمپس وجوہات کو دیکھتے ہیں۔ یہاں قابل غور، خود ساختہ علمی تگ و دو کرنے والے دوست کہ وہ بھی یہاں کے نفسیاتی عارضوں کے آگے بے بس ہیں۔ ویسے تو یہ لازم ممکنات میں لگتا کہ جب انسان کا ذہن کی پرورش اتنی تن تنہا اور خود ساختہ ہوگی تو خود کو تباہ کرنے والے رحجانات اور ار-ریشنل ایٹچیچیوڈز کا پیدا ہو جانا بہت پتہ کی بات لگتی۔ پھر پراپر شناخت کا میسر نہ ہونا، تگ و دو کے برابر بروقت پہچان نہ ملنا مزید شکست و ریخت کا سامان ثابت ہوتی۔
انسان ابھی مکمل دریافت نہیں ہوا۔ نفسیات ایک غیر حل شدہ معمہ ہے۔ ہر چیز کو یک حرف، میکانکی اور نتیجہ خیز دیکھنے کی چاہت میں انسان کے پاس متنوع نفسیات کی مدافعت کیلئے بہت کم آپشن بچ جاتے۔ ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ بہت سے سمجھدار ذہن کے حامل دوستوں کو انٹیلیکچول یا سیریبیرل نارسسٹک عارضہ درپیش ہوتا۔ انفرادی پرستش کے کلچر میں ذات کی رونمائی کی مقدار صلاحیت سے زیادہ ہو تو روح کی زبان کنگال لگتی ہے۔ پھر گیان اور بھاشن بانٹنے کا شور، شوق ہو جاے تو شک جنم لیتے کہ وہ کونسے بھرم جن کی لاج میں شور درکار گویا "شراب کی طرف گئے شراب کیلئے نہیں"۔ کچھ دوستوں کو شعور لاشعور سے زاید آ جاتا۔ لگتا جانے کب کہاں وہ مہا بھارت کرنے کو وہ بھی فقط، شعور ہے تو ہے کی بنیاد پہ۔ ذہنی صحت، شعور لینے کیلئے جائے بھاڑ میں۔ بہرحال صغر سنی کی موت کا شکار یہ شادابی پھر بھی لاہق داد ہے جیسا کہ حضرت جوش کے قریب:
عالم کا دیا ہوا گُمانِ بد بھی
جاہل کے عطا کردہ یقیں سے بہتر
فکری توانائی کے اجزا کی مقدار و تراکیب پہ گفتگو تو خیر ایک صحت افزاء موضوع۔ بدشگن تو یہ کہ ایسے مرکزی درسگاہ میں اکثریت سے بھی کثیر تعداد کے نان ڈائنیمک ہونے سے جب آپ تمام ملکی تعلیمی اداروں کو بآسانی جنرلائزڈ کرکے دیکھتے، تو معاشرے کے بھیانک سکوت آپکے سامنے تہہ تک عریاں نظر اتے۔ جس پہ دکھ سے زیادہ ہمدردی محسوس ہوتی۔ کہ جانے کب تک انسان نما اس دنیا میں مجموعی سکوت و بے جانی، بربریت کا بلا مقابل جواز بنی رہے گی۔ کئی بار لگتا یا خواہش ہی سہی کہ لوک سبھا کو آخر کبھی ادراک کرنا ہی ہوگا کہ کمزوری دریا دلی نہیں خودکشی ہے۔ شخصی تکمیل کسی میکانکی اصول پہ فٹ نہیں آتی۔ اس کیلئے مزید سانچوں کی متواتر تخلیق کی ضرورت رہتی ہے۔ اس ضرورت کے بغیر جیتے تو اے ہیں۔ پر جیتے رہے تو پھر بس یہی کہتے پھریں گے کہ، جو ہیں تو ہیں۔ اور ہوں گے تو ہوں گے۔
جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا
وہی بیش و کم درس گاہوں میں تھا
اور پھر امید ہمیشہ کھوٹے داموں چوں چراں کرتی رہے گی کہ خودمختاری میں پناہ لے لو، پناہ لے لو پناہ لے لو، عمر بھر کے بے پناہوں۔
وہ کیا دیتا اخترؔ کسی کو پناہ
جو خود عمر بھر بے پناہوں میں تھا