Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Anwar Mian
  4. Shaoor Ko Zarben Na Lagaun

Shaoor Ko Zarben Na Lagaun

شعور کو ضربیں نہ لگاوں

نظام! استعفراللہ! کونسی بات منہ سے نکل گئی۔ جمہوریت! استعفراللہ استعفراللہ! آج تو کچھ بھی بکتا جارہا ہو۔ اجتماعی شعور کی عزت کی جائے! اوہ! پتہ نہیں آج میرا منہ کیوں بےلگام ہوگیا ہے۔ اگر ایسا رہا تو بات پریس کانفرس کرنے تک جاسکتی ہے۔ یا شاید گمنام سی کوٹری تک۔ دنیا سے دوراور تاریک و بے خبر۔

رائے عامہ کی قدر کی جائے! اوہ! یہ آج سب کچھ بےقابو کیوں ہے؟ میرا خوش ٹھکانے تو ہے؟ کہی پاگل تو نہیں ہوا ہو۔

چھ دہائیوں سے گھڑی گئی قدروں کا پیچھا چھوڑ کر معاشرے کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے! یار! یہ ہو کیا رہا ہے؟ میں خود کو بے قابو کیوں پا رہا ہو؟ یہ تو کھلی بغاوت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چھ دہائیوں سے گھڑی گئی قدروں جیسے سیاست میں مداخلت کرنا اور معاشرے کو فطری ارتعقائی انداز میں آگے بڑھنے کے بجائے اپنے من پسند کے ڈھانچے میں ڈھالنا جیسے قدروں سے کیسے پیچھا چھوڑانے کی بات کی جا سکتی ہے۔ مزاحمت کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ بے حدی بھی حد کی ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جلد ہی بالادست طبقوں نے پاکستان کی سیاسی و سماجی ڈھانچے کو اپنی من پسند سانچے میں ڈالنے کی کوشش شروع کی۔ اس عمل میں جاگیردار سرفہرست تھے۔ جب کہ ساتھ میں مولوی، اور سول و ملٹری بیروکریسی بھی شامل تھی۔ مگر جلد ہی ملٹری بیروکریسی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مارشل لاء کے ذریعے سیاست پر قبضہ کیا گیا۔ پھر یہ قبضہ سیاست و سماج میں اپنی من پسند قدروں و روایات گھڑنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کو برقرار رکھنے کے لئے سیاست میں مداخلت کی قدر کو مسلسل اپنایا گیا۔

یہ عمل بلا واسطہ اور بلواسطہ دونوں طریقوں سے پروان چڑایا گیا۔ جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف جیسے براہ راست جمہوری اقدار پر حملے بھی ہوئے اور غیر جمہوری قدریں گھڑے گئے۔ جمہوری نظام کی بے قدری کی گئی۔ جمہور کی رائے نہ سنی گئی۔ تقررِ منتظم سے متعلق عام شہریوں کی رائے کا حق چینا گیا۔ سماج میں مزہب کے متعلق اپنے من پسند کردار کا قدر وظع کیا گیا۔ عقائد لوٹھے گئے۔ جنرل پاشا اور جنرل باجوا جیسے بھی رہے ہیں اور شاید ابھی بھی ہے۔

سیاسی چہرے کو آگے کرکے خود پیچھے بیٹھ کر کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کرتے وہی جو پہروں کرچکے تھے۔ بس انداز توڑا الگ رکھتے ہیں۔ پہل کرنے والے جمہور کی رائے سنتے نہیں ہوتے تھے اور یہ اپنے پسند کے مطابق تبدیل کرتے ہیں اور وہی سنتے ہے جو انہیں پسند ہوں۔ باقی کوئی دوسری گنجائش محدود کی جاتی ہے۔ ہائبریڈ ماڈل اپنا کر سیاسی اداراتی نظام کا جنازہ پڑھایا جاتا ہے۔ جمہورت ہوتے ہوئے بھی مزاق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ رائے عامہ کو رسوا کرکے اجتماعی شعور کی پرخچے اڑائے جاتے ہیں۔

2008 میں ایک کرکٹ سٹار عمران خان کو اپنے من پسند ڈھانچے کے تسلسل کے لئے چنا گیا۔ جبکہ 2011 میں اس پراجیکٹ پر باقاعدہ کام شروع ہوا۔ سیاسی اداراتی و انتظامی اداراتی ڈھانچے کو درست کرنے کے بجائے ایک مسیحا قوم کے سامنے پیش کیا گیا۔ پالیسیوں کے بجائے لوگوں کو گلیمرس کے پیچھے لگایا گیا۔ عوام کو سننے کے بجائے عوام کو فیصلہ سنایا گیا۔ عوامی رائے کو اپنے مرضی کے مطابق تبدیل کیا گیا۔ عمران کو لانے کےلئے عقلی سوالوں کو بند کیا گیا۔ نظام کے بجائے ایک شخص کو ناگزیر پیش کیا گیا۔ ایک شخص کو مسائل کا حل سمجھایا گیا۔ یوں شعور کو ضربیں لگائی گئی۔ رائے عامہ کے اوپر اداراتی رائے کو تھوپا گیا جس سے اجتماعی شعور کو ایزا پہنچا۔ ووٹ کی بے توقیری کی گئی۔

یہ سلسلہ اب بھی شد ومد کے ساتھ جاری ہے۔ پہلے عمران کو چاہنے والے اور لانچ کرنے والے اسے ناگزیر سمجھتے تھے اب نواز شریف کو پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلے عمران آخری امید ٹہرا تھا۔ اب نواز شریف آخری امید پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلے مسلم لیگ عوامی رائے یعنی ووٹ کی عزت کی بات کرتے تھے۔ اب پی ٹی آئی پاپولرٹی قبول کرنے کی بات کر رہی ہے۔ پہلے بھی عوامی رائے نہ سنی گئی اور اب بھی سنی نہیں جا رہی ہے۔ مسلم لیگ کی سولہ مہینوں کی حکومت پر اٹنے والے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے بجائے عام آدمی کی عقلی بساط کو گالیاں دی جارہی ہے۔ عمران پاکستان کی آخری امید تھا تو نواز شریف کے بغیر پاکستان نہ چلنے کی بات ہو رہی ہے۔ اجتماعی دانش پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اگر یہ اجتماعی شعور کو ضربیں لگا کر اس بابت ناانصافی کا قدر اپنانا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

دھائیوں سے گھڑی گئی یہ قدریں جمہور کی رائے پر قابض آرہے ہیں۔ سیاسی و تنظیمی اداراتی ساخت کو درست کرنے کے بجائے اشخاص کو ناگزیر کرنے والے اقدار اج بھی زندہ و جاویدہ ہیں۔ جمہوری عمل آج بھی اپنے روح کے مطابق زندہ نہیں ہے۔ سیاست میں سب کو ایک جیسا موقعہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ مگر اس وقت حالات اس کی ضد ہے۔ کسی کو باہر رکھنا یا کسی کو عوام پر تھوپنا دونوں اپنائے گئے غلط قدریں ہیں۔ عوام کو اپنے رائے دینا اور انکی عقلی بساط کی قدر کرنا ضروری ہے۔ ریاست و معاشرے کو ایک سانچے میں ڈالنے کے بجائے اپنے فطری انداز اور چوبیس کروڑ عوام کے شعوری بساط پر چھوڑنا بہتر ہے۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra