Radd e Dehshat Aur Pakistan
ردِ دہشت اور پاکستان
امریکی انخلا اور افغان طالبان کی طاقت میں آنے سے دنیا بھر کے مذہب پرست بندوق برداروں کو اخلاقی تقویت ملی ہے۔ جو دو دہائیوں سے مایوسی کے شکار تھے، امریکی انخلا نے ایک بار پھر ان بندوق برداروں کے مورال کو بلند کیا اور خود اعتمادی کی تازہ ہواوں کے جھونکوں پر جھونکے میسر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی کامیابی پر صومالیہ میں الشہاب اور شام کے صوبہ ادلب میں حیات تحریر الشام نے جشن منایا۔ یمن کے کچھ علاقوں میں آتش بازی کی گئی اور افریقی و ایشیائی ممالک میں بھی جہادی تنظیموں کی جانب سے تہنیتی پیغامات اور سوشل میڈیا میں میمز کی بھرمار ہوئی تھی۔
طالبان کے برسر اقتدار آنے اور کامیاب ہونے سے جہادی تنظیموں کو امید لاحق ہوئی کہ اگر عام ہتھیاروں سے مسلح تنظیم سپر پاور کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے پہلے سے دہشت گردی کے شکار ممالک کو ایک بار پھر کہیں زیادہ تو کہیں کم مگر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا یا اب تک کرنا پڑھ رہا ہے۔ اسی کا سلسلہ سمجھو یا الگ مگر ریاستِ پاکستان افغان طالبان کی کامیابی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
پاکستان اپنے علاقائی نزدیکیت، سماجی اور ثقافتی یکسانیت، افغان-پاکستان پورس بارڈر، اور افغان-پاکستان طالبان کے درمیان روابط اور ورکینگ ریلیشن شپ کی وجہ سے پاکستانی طالبان کے لیے پاکستان میں کاروائیاں کرنا آسان ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر طالبان کے کابل تحت پر بیٹھنے سے پاکستانی طالبان سمیت سب بندوق بردار مذہب پرستوں کو محفوظ پناہ گاہیں میسر آئے ہیں۔ ٹی ٹی پی پاکستانی فوج کے غیظ و غضب سے محفوظ اپنی بکھری ہوئی وجود کو جمع کرنے لگی۔ پورس بارڈر سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں کاروائی کرکے بھاگنے کا حق بھی محفوظ اور اپنے خاموش حمایت یافتہ(سلیپنگ سیل) کے ساتھ بھی دوبارہ روابط قائم کی۔ اسی کی بدولت 2021 کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور 2022 میں اس نہج تک پہنچا کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ادھر رونما ہوئے۔
دوسرے وجوہات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کے پیچھے ریاستی کنفیوزڈ پالیسی بھی ہے۔ طالبان کی حکومت میں آنے پر پاکستان غلط اندازے لگا بیٹھا۔ امریکی انخلا کے ساتھ انڈیا بھی بے دخل ہو رہا تھا اور ساتھ میں طالبان دنیا کو اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی بھی کروا رہے تھے جس سے ہمارے پالیسی ساز غلط اندازے لگا بیٹھے کہ شاید طالبان کے آتے ہی پاکستان کی مغربی سرحد بھی محفوظ ہوجاے گی، مگر طالبان کی دوسرے بندوق بردار گروہوں کے ساتھ مضبوط ورکینگ ریلیشن شپ کو اندازے سے باہر رکھا۔
یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے اپنا وزن افغان طالبان کے پلڑے میں رکھا اور ایک نے تو جاکر چائے کے چسکے بھی لئے۔ اس کے علاوہ ہمارے پالیسی ساز بہت دیر تک یہ بات واضح نہیں کرپائے کہ بات کرنی ہے یا لڑنا ہے۔ اگر بات کرنی ہے تو کس سے کرنی ہے؟ افغانستان کی ریاست سے جس کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے یا تحریک طالبان پاکستان سے کرنی ہے؟ جو ہم سے لڑ رہے ہیں۔ پہلے ٹی ٹی پی سے بات ہوئی جب نتائج نے پریشان کرنا شروع کیا تو پھر صرف افغان حکومت سے بات کرنے پر آگئے۔
گزرے ہوئے پورے 2023 میں دہشت گرد کاروائیوں نے کے پی اور بلوچستان کے طول و عرض کو جگڑ رکھا ہے اور سکورٹی اہلکار شہادتیں دے رہے ہیں مگر عام آدمی یہ نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ روکنے کےلیے ریاستی پالسی کیا ہے۔ بس افغان حکومت کی یقین دہانیوں اور تردید کا سلسلہ اور پاکستان میں اداروں کی انٹیلیجنس کے بنیاد پر آپریشنز کی خبریں۔ مگر یہ سلسلہ تو 2021 اور 22 سے شروع ہے۔ اس سے عام آدمی کیسے مطمئن ہوسکتا ہے؟ کیونکہ اس حکمت عملی کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں اظافہ ہوا ہے۔ اب تک کمی کی کوئی اثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ بس ایک بہتری ہوئی ہے کہ پالیسی کا یہ پہلو واضح ہوا ہے کہ ڈیل کس سے کرنی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کا یہ موقف اب واضح ہے کہ بات افغان حکومت سے ہوگی ٹی ٹی پی سے نہیں۔
ہمارے سٹریٹجیز کا ایک برا پہلو یہ تھا کہ ہم نے مختصرالمدت پالیسیوں پر انحصار کیا جو عسکری کامیابیوں پر منحصر تھا۔ جب کہ سویلین سایڈ پر تاریکی تھی۔ سیاسی قیادت مہیا کرنا اور سائیکلوجکل فرنٹ پر لڑنا شعوریِ اجتماعی میں نہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کہی نہ کہی عقل انفرادی میں تھا۔ مگر اس پہلو پر ہم لڑے نہیں ہیں اورشاید یہی وجہ ہو کہ ٹی ٹی پی نے خاموش خمایت یافتہ مذہب پرستوں کے اعتماد کو کسی سطح پر کیش کیا ہے۔ جس کا اثر آئے روز سرحد سے دور علاقوں میں دہشت گرد کاروائیوں کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
بہت دیر تک سیاسی و اداراتی اور صوبائی و وفاقی سٹریٹجک تعاون کی کمی تھی جس سے حرکی جنگی کاوشوں کے نتیجے میں حاصل کی گئی کامیابی کو ثمر کے ساتھ نہیں سمیٹا گیا۔ مگر اب نکٹا یہ کمی پوری کر رہی ہے۔
سٹریٹجکلی چند چیزیں بہت اہم ہیں، پہلا افغان طالبان کے ساتھ ڈیل کرنے کی پالیسی واضح ہونی چاہئیے۔ اسٹیک کا استعمال کرنا ہو یا کیرٹ۔ اگر بات کیرٹ سے ٹھیک ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہے۔ جو دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں کو لیکر معاشی پلان کی شکل میں ہوسکتا ہے یا کچھ اور۔
دوسرا اندورنی سطح پر دہشت گردی سے لڑنے کےلئے پلان جامع ہونا چاہیئے۔ مطلب یہ کہ بات صرف انٹیلیجس بنیاد پر آپریشن اور عسکری کامیابیوں تک نہ ہو بلکہ سائیکلاجکل فرنٹ پر لڑنا شامل ہو۔ جس میں سیاسی و مذہبی قیادت کے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی کلیدی کردار بنتا ہے۔ کیونکہ بیانیے کا جنگ جیتنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کو مظبوط کرنا ہوگا۔
تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ عوام کے اعتماد کو جیتنا ہوگا۔ عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ ہم کل کر چیزیں عوام کے سامنے رکھے۔ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اٹھنے والے آوازوں کو مدد دیں اور انکے ساتھ بیٹھنے میں کوئی غارت محسوس نہ کریں۔