Masail Banam Nai Hukumat
مسائل بنام نئی حکومت
ہمارا سیاسی نظام کبھی بھی آئیڈیل جمہوری نظام نہیں رہا۔ ہر ڈگر پر مشکلیں رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے تختے الٹ گئے۔ قوانین معطل کئے گئے۔ سیاسی رہنما ملک بدر کئے گئے۔ کسی کو بنا طاقت کی کرسی دی گئی۔ کوئی کرسی پہ بیٹھا تھا مگر فیصلوں میں آزاد نہ تھا۔ کبھی ووٹ چوری ہوئے تو کبھی کسی کے خلاف دھرنے کروائے گئے۔ کبھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھایا گیا۔ تو کبھی سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دی۔
ان تمام باتوں کے علاوہ 2006 میں میثاقِ جمہوریت ہوگئی اور دو بڑی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس بات پہ اتفاق کیا کہ کبھی ایک دوسرے کے خلاف غیر جمہوری قوتوں کی مدد نہیں کرینگے۔ میثاق میں سول بالادستی کا تصور سامنے آیا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دونوں پارٹیوں نے کبھی بھی اس معاہدے پہ اپنی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا مگر پھر بھی یہ ایک اچھا آغاز ضرور تھا۔
2011 میں سیاسی منظرنامے میں ایک آور کردار پی ٹی آئی کا اضافہ ہوا۔ ویسے یہ جماعت پہلے سے موجود تھی مگر سیاسی منظرنامے میں ایک واضح حصہ دار کے طور پر ابھرنا شروع ہوئی۔ ایک ایسا کردار متعارف ہوا جس سے سیاسی جماعتوں اور جمہوری آوازوں کو گالیاں دلوائی گئی۔ باوجود اس کے کہ خود بھی ایک سیاسی جماعت تھی۔ جمہوری ہونے کا دعوی بھی رکھتی تھی مگر حکومت میں آنے کے بعد کبھی صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑتے تھے۔ تو کبھی صوبائی خود مختاری پر سوال اٹھاتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو گالیاں دی گئی۔ ایک نسل تیار کی گئی جو سیاسی قائدین کو گالیاں دیں۔ سیاسی جماعتوں کو لتاڑے۔ ان کے خلاف ایکس سابق ٹویٹر پہ ٹرینڈ چلائے۔ اس نسل سے سوشل میڈیا کو ٹرینڈ فیکٹری میں تبدیل کیا گیا۔
2018 میں پی ٹی آئی کو جتوانے کےلئے سیاسی انجینیئرنگ کی گئی۔ سیاست میں مداخلت کا عنصر واضح طور پر غالب رہا۔ مگر9 مئی کے بعد پی ٹی آئی سے لوگ جس طرح نکلے یا نکالے گئے اور پریس کانفرنسز کا رسم ڈالا گیا یہ بھی ایک واضح انجینیئرنگ ہے۔ جو بدقسمتی سے ابھی بھی جاری ہے۔ نوازشریف کی واپسی بھی اداروں کی رضا مندی سمجھی جا رہی ہے۔ اداروں کی مداخلت کا عمل ہمیشہ رہا ہے مگر اس وقت سیاسی خلا کو زیادہ پکڑا ہوا ہے۔ عام آدمی کے پاس سیاسی خلا بہت محدود اور خاص سمت پہ ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ عام آدمی ان مسائل کے حل کےلئے نگاہ براستہ ہے۔ کیونکہ جب تک سیاسی جھنجھٹ رہے گی معیشیت ٹھیک نہیں ہوگی اور ان سے جھڑے عام آدمی کے مسائل بھی ٹھیک نہیں ہونگے۔ مگر کیا ان مسائل کا حل ہونا ممکن بھی ہیں؟ عام آدمی کی نظریں الیکشن پہ ہے۔ عام آدمی اس تصور و خام خیالی میں ہے کہ نئی حکومت بنے گی تو شاید انکے مسائل میں کمی آجائے۔
ویسے یہ تصور کہی نہ کہی درست بھی ہے کیونکہ اکثریتی سیاسی چپقلش دور ہوجاتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں ووٹ بھی مسائل کے حل کے نام پہ مانگتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ حکومتیں آکر کچھ نہ کچھ مسائل حل بھی کرلیتی ہیں۔ مگر اس مرتبہ حکومت آنے سے پہلے بہت سے مسائل انکا استقبال کر رہے ہیں۔ جس میں چند ایسے ہے کہ اگر انکو غلط انداز میں ڈیل کیا گیا تو مسائل اور گمبھیر ہوجائنگے۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست کو کیسے نارملائز کریں۔ یہ آنے والی حکومت کے سامنے ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔ سیاست میں مڈوے دیکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف لوگ گالم کلوچ کا کلچر، دوسری طرف رسمِ پریس کانفرسز اور پی ٹی آئی سے جبری بے دخلیاں۔ تیسری طرف اگر پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن ہوتا ہے یا اسے وہ خلا نہیں دیا جاتا جو دوسرے سیاسی جماعتوں کو دیا جا رہا ہیں۔ اس پہ سہاگہ یہ ہے کہ اگر اس تاثر کے ساتھ الیکشن میں گئے کہ نواز شریف کو لانے میں سہولت کاری کی گئی ہو۔ جیسے اس وقت تاثر موجود ہے اور راستہ ہمواری کی گئی ہو تو الیکشن پر سوالات اٹھینگے۔ یوں یہ الیکشن متنازع ہوجائے گا اور سیاست اور گمبھیر ہوجائے گی۔
ملک کی سیاسی شکل ابھی بھی گمبھیر ہے۔ نارملائز کرنا ایک مشکل امر ہے۔ 2014 کے بعد سیاست دانوں کے درمیان اور 2018 کے بعد سیاستدانوں سمیت اداروں اور مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ایک ٹکراو والی صورتحال کا سامنا ہے۔ نئی حکومت نے سیاسی ڈھانچے کو اس صورتحال سے نکالنا ہے اور یہ ٹکراو والی صورتحال ختم کرنا ہے۔ سب سیاسی قوتوں کو ایک خلا دینا ہے جس میں وہ سیاست کھیل سکے۔ عام آدمی کو بھی یہ محسوس کرانا ہے کہ وہ سیاسی طور پر آزاد ہے۔ اداروں کو اعتماد میں لیکر مداخلت کا رسم توڑنا ہے۔ سیاست کو سیاست دانوں اور عام آدمی کے لئے قابل کھیل بنانا ہے۔
اس کے علاوہ نئی آنی والی حکومت کو اس سنگین مسئلے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کہ وہ ملکی معاشی ڈھانچے میں فوج کے کردار کو مانے یا اسے باعزت طریقے سے قانونی دائرے تک محدود کریں۔ سوال یہ ہے کہ نئی حکومت اپنی معاشی اختیارات پہ سمجھوتہ کریگی؟ اگر حکومت نے اختیارات پہ سمجھوتہ کیا تو سول ملٹری تعلقات بہتر رہے گی۔ اور اگر فوج کو معاشی دائرے سے نکالنے اور قانونی دائرے تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت کے لئے مشکلات بڑھ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ نئی حکومت کے لئے یہ مشکل کام ہوگا کہ اداروں کے ساتھ بنا کسی ٹکراو والی صورتحال پیدا کئے اسے اپنے آئینی حدود تک محدود کریں۔
اسکے علاوہ معاشی پہلو پر بھی کارکردگی دکھانا ہے۔ اگر آنے والی حکومت اس معاشی کارکردگی کو دکھانے میں ناکام ہوگئی تو اس کے لئے مشکلیں کھڑی ہونگی۔ خصوصا عوام کی طرف سے ناراضگی۔ جس سے مخالف فائدہ اٹھا سکتا ہے۔