Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Zindagi Asan Ya Mushkil?

Zindagi Asan Ya Mushkil?

زندگی ، آسان یا مشکل ؟

زندگی کی دوڑ میں کبھی ہم تھک کر سوچتے ہیں، کہ زندگی مشکل کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ نت نیا چیلنج، ہرروز کوئی نیا مسئلہ، ملازمت یا کام کی الجھنیں، رشتے ناتوں کی پیچید گیاں، طبی مسائل، ڈیپریشن، فرسٹریشن، تنہائی وغیره۔ زندگی آسان ہے یا مشکل، اس کا فیصلہ ہم خود ہی کرتے ہیں۔ جب زندگی بوجھل لگنے لگتی ہے تو اس میں بھی عمل دخل ہمارا ہی ہوتا ہے۔ روز مرہ زندگی کے رشتوں میں محبت اور توازن کھو جائے یا انسان اپنی خواہشات کا غلام بن جاۓ تو یہ تلخ اور بوجھل ہو جاتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم خود کو دریافت ہی نہیں کر پاتے، اور غلط سمت میں چل پڑتے ہیں۔ کبھی شارٹ کٹ ڈھونڈنے میں بہت سا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔

آج سے چند دہائیاں پہلے زندگی نسبتا ساده اور آسان تھی۔ اس کا عکس ہمارے رہن سہن، کھانے پینے اور طرز معاشرت پر بھی تھا۔ دھیرے دھیرے ہم نے خود ہی اپنے لئے مشکل زندگی کا چناؤ کر لیا۔ چند دہائیاں پہلے ہمارے روزمرہ خورد ونوش کے معاملات کا ذکر کر یں توگھرہی میں بنی ایک یا دو ایک ڈشز کو پوری فیملی مل کر انجواۓ کرتی تھی۔ اگر کوئی بچہ اس پر منہ بناتا یا شکایت کرتا، تو ماں کی پٹاری میں کئی خوبصورت حیلے بہانے ہوتے، جس سے وہ وہی کھانا راضی بخوشی کھا لیتا۔ آج اکثر گھروں میں ہر فرد کی مرضی کا الگ کھانا بنتا نظر آتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کھانے کی میز پر ضرورت سے زیادہ ڈشز رکھنا ہمارے ہاں عام ہے، اور بچے بھی صرف اپنی مرضی کی دو چار چیزوں کو ہی پسند کرتے ہیں، اس حوالے سے نئی جنریشن میں flexibility کا فقدان نظر آتا ہے۔ کئی مائیں تو اس حوالے سے خاصی پریشان نظر آتیں ہیں۔

انسان کو social animal کہا جاتا ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور عزیز واقارب سے میل ملاقات ہوتی رہے تو اس کی شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہم نے مہمان داری جیسی رحمت کو اپنے لئے زحمت میں تبدیل کر دیا۔ مہما نوں کے لئے میزبان کے ہاتھوں سے بنا، محبت اور خلوص سے پیش کیا جانے والا کھانا بے مثل ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے مہمان نوازی کی اس سادہ اور خوبصورت روایت کو بھی بناوٹ اور تصنع کا رنگ دے دیا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں ایک روایتی قسم کا تصور بیٹھ چکا ہے کہ مہمانوں کے لئے ہمیں ایک خاص قسم کے menu کو اپنی میز پر پیش کرنا ہے۔ بعض اوقات تو شادی یا دعوت کے موقع پر اتنی ڈشز پیش کی جاتی ہیں کہ مہمان کچھ کو تو ٹچ بھی نہں کر پاتے۔ اس منفی تاثر ا ور trend کی وجہ سے لوگ دھیرے دھیرے ملنے جلنے سے کترانے لگے۔ لیکن خوشں آیند بات یہ ہے کہ نئی جنریشن کا کچھ فیصد اس سے انحراف کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی ترجیح میں صحت مند اور جھٹ پٹ سادہ کھا نے، جن کے لئے گھنٹوں کی محنت درکار نہیں ہوتی، شامل ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ جیسے موقع پر فضول اور غیر ضروری رسومات ہماری زندگی کو مشکل بنانے کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہم کرونا وائرس کے خوف سے سادہ اور باوقار شادیوں یا تقریبات کا اہتمام کر سکتے ہیں تو اللہ کے حکم کے تعمیل اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کےلئے کیوں نہیں؟

زندگی کو سادہ او ر آسان بنانے کا سنہری اصول ہے کہ اپنی ذات کا دوسروں سے موازنہ نہ کیا جاۓ۔ نمود ونمائش سے پرہیز کی جاۓ۔ designer ملبوسات، جوتوں اور دیگر اشیاء کا شوق اپنی جگہ، لیکن جب یہ جنون میں بدل جائے تو قابل مذمت ہے اور اس میں مبتلا لوگ یقینا قابل رحم ہیں۔ ان ملبوسات پر خواتین کی ایک دسرے سے زبانی تکرار، کھینچا تانی اور گتھم گتھا ہونے کی ویڈیوز سوشل میڈ یا پر موجود ہونا اخلاقی گراوٹ اور ذہنی خلفشار کا زندہ ثبوت ہیں۔ اپنی ذاتی قابلیت یا شخصیت کے بجاۓ ان مادی چیزوں سے دوسروں کو متاثرکرنے کا جنون ایسی ویڈیوز کا محرک بنتا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ اس رویے کو بڑھاوا بھی دیتا ہے۔ جب کہ اہل شعور لوگوں کی نظر میں یہ جنون کوئ وقعت نہیں رکھتا۔ مادیت کے اس دور میں آج وہ لوگ قابل تحسین ہیں جو brands کا بل بورڈ بننے کے بجائے اپنی ذات اور خودی پر یقین رکھتے ہیں۔ اور میانہ روی کا راستہ اپناتے ہیں۔

ہمارے ہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں زندگی بہت آسان ہے۔ ہر قسم کے کام کے لئے الگ سے اعلی مشین موجود ہے۔ ہمارے احباب میں سے ایک خاتون پاکستا ن سے امریکہ تشریف لے گئیں۔ روانگی کا مقصد تفریح سے زیدہ اپنے بیٹے کی فیملی کی ہر ممکن مدد کرنا تھا، جن کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت متوقع تھی۔ روانگی سے قبل پڑوسن ملا قات کیلۓ آئیں، اور کہا بھئ واہ! آپ تو امریکہ گھومنے جا رہیں ہیں۔ خاتون نے اللہ تعالی کا شکر اداکرتے ہوۓ اپنے جانے کا مقصد بیان کیا، جس پر پڑوسن نے حیرت کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ بھئ امریکہ میں تو ہر کام کیلئے جدید ترین مشین موجود ہے۔ وہاں بھلا آپ کی مدد کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟ خاتون تین ماہ امریکہ قیام کے بعد پاکستان واپس پہنچیں تو پڑوسن بہت ذوق و شوق سے ملنے آئیں۔ رسمی باتوں کے بعد امریکہ کے طرز زندگی اور جد ید مشینوں کے بارے میں استفسار کیا۔ خاتون نے مسکراتے ہوۓ کہا کہ درست ہے، کہ وہاں گھریلو اور باہر کے کاموں کےلئے مختلف مشینیں موجود ہیں۔ لیکن وہاں جو سب سے بڑی مشین ہے، وہ انسان خود ہے۔ پڑوسن بھول رہیں تھں کہ امریکہ میں الہ دین کا چراغ نہیں، مشینیں ہیں جن سے کام لینے کےلئے انسانی ہاتھ پاؤں ہلا نا لازمی ہے۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں ہر شخص بچہ، جوان، بوڑھا، مردوعورت اپنی استطاعت کےمطابق کام کرنے سے گھبراتا نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی عار سمجھتا ہے۔ یہاں کا ماحول آپ کو عملی زندگی کےلئے پوری طرح سے تیار کر دیتا ہے۔

ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم مغرب کی نقل تو کرتے ہیں لیکن اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق۔ ہمیں مغربی لباس، طورطریقوں اور آزادانہ لائف سٹائل میں تو بڑی کشش محسوس ہوتی ہے، لیکن ہم اپنے ہی کام خود کرنے اور اپنا بوجھ اٹھانے میں قطعا کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ نہ ہی ہم وقت کی قدر کرتے ہیں اور ڈسپلن کا خیال رکھتے ہیں۔ آج مغربی کلچر کے حصار میں آ کر ایک مکتبہ فکر نے اپنے بچوں کو بےجا آزادی بھی دے دی اور ان سے سوال وجواب کا حق بھی کھو دیا۔ لیکن اپنا بوجھ خود اٹھانے اور احساس ذمہ داری والا سبق مکمل فراموش کردیا۔ والدین کی دولت پر اٹھلاتی اور موجیں مارتی نوجوان نسل کا یہ چند فیصد مٖغرب کی بھونڈی نقالی کی وہ دین ہے، جو نہ صرف اپنی بلکہ والدین کی زندگی کو بھی مشکل بنا دیتی ہے۔ بقول جون ایلیا

زندگی ایک فن ہے لمحو ں کو

اپنے انداز سے گنوانے کا

زندگی کسی کیلئے پھولوں کی سیج ہے تو کسی کیلئے کانٹوں کا بستر۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اسے فہم وفراست اور دانشمندی سے نوازا۔ زندگی اپنے اختتام تک بہت سے پیچ و خم اور نشیب و فراز سے گزرتی ہے۔ اور تقدیر کے ساتھ ساتھ انسانی فیصلے اس پر پوری طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں، جو اس کی زندگی کو آسان یا مشکل بناتے ہیں۔ زندگی کو سمجھنا ایک لگا تار عمل ہے اور یہ زندکی کے ساتھ ہی ختم ہوتا ہے۔ بقول بابا فرید

کوئی بن گیا رونق پکھیاں دی، کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا

کوئی پلیا ناز تے نخریاں وچ، کوئی ریت گرم تے تھل چلیا

کوئی بھل گیا مقصد آون دا، کوئی کر کے مقصد حل چلیا

اتھے ہر کوئی فرید مسافر اے، کوئی اج چلیا، کوئی کل چلیا

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez