1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Social Life, Bache Aur Hum

Social Life, Bache Aur Hum

سوشل لائف، بچے اور ہم

انسان کو social animal کہا جاتا ہے۔ میل ملاقات، دوستی، رشتے ناتے، ان سب کے بغیر زندگی کا لطف ہی کیا ہے؟ کبھی ان کی مٹھاس زندگی میں رنگ بھرتی ہے، تو کبھی ہمیں کچھ ترش ذائقے بھی چکھنے کو ملتے ہیں۔ بعض اوقات تو بچپن کی دوستیاں عمر بھر نبھائی جاتیں ہیں تو کبھی کچھ ایسے اسباب یا حالات پیدا ہو جاتے ہیں، جن سے دوستی کا رشتےمیں دراڑ پڑنے لگتی ہے۔ بچپن کی دوستی بہت پر خلوص اور سادہ ہوتی ہے۔

محلے میں دو بچوں کی لڑائی پر جب والدین آپس میں گھمسان کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں تو وہی بچے اپنے ماں باپ سے آنکھ بچا کر اگلے دن مل کر کھیلنے کا پلان بنا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کا من کینہ اور کدورت سے کوسوں پرے ہوتا ہے۔ وہ ابھی دولت، سٹیٹس اور عہدے کی دوڑ میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہوتے۔ بحیثیت والدین اپنے بچوں کی دوستیوں پر نظر رکھنا ایک قدرتی امر ہے۔ اس کچی عمر میں کھرے کھوٹے کی پہچان ذرا مشکل سے ہو پاتی ہے۔

کئی دہائیاں پہلے یہ معاملات کافی سخت ہوا کرتے تھے۔ گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ میل ملاقات کی آزادی نہیں تھی۔ دوست کے گھر جانا ہو تو اسکی فیملی کی پوری معلومات حاصل کی جاتی تھیں۔ بعض گھروں میں تو ذات پات کا استفسار بھی کر لیا جاتا تھا۔ لیکن آج بھی محتاط والدین اپنے بچوں کے دوستوں اور میل ملاپ پر نظر رکھتے ہیں۔ آج کل اکثر گھروں میں جب مہمانوں کی آمد کا ذکر ہوتا ہے تو گھر میں موجود بچے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ بچے بھی ہوں گے؟ اور اگر بچے ہیں تو کیا وہ ہمارے ہم عمر ہیں؟

اگر وہ ان کے ہم عمر ہی ہوں تو ان کے لئے بہت خوشی کی بات ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس دوسری صورت میں بچے کچھ خاص خوش دکھائی نہیں دیتے اور بعض اوقات تو اپنے کمروں میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں یا کوئی اور پلان بنا لیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور نت نئ ایجادات نے جہاں ہمارے بچوں کو فاسٹ اور سپر سمارٹ بنا دیا ہے وہیں ان کی سوشل لائف میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اپنے ہی والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بھی بات چیت میں کنجوسی واضح نظر آتی ہے۔ دوستوں کے ساتھ بھی ٹیکسٹ میسیجز کا تبادلہ گفتگو سے زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔

اس کے برعکس جن گھروں میں بچوں سے بات چیت، ان کی رائے کو سننے، اور گھر سے باہر کے افراد یا مہمانوں کے ساتھ بھی ضروری گفتگو کو اہمیت دی جاتی ہے وہاں یقینی طور پر بہتر نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح جن بچوں کو بڑوں میں بیٹھنے کی عادت نہ ہو، وہ اکثر بزرگوں یا اپنی عمر کے بڑی افراد سے گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن بچوں کو یہ سمجھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ کبھی کبھار بڑوں کی کمپنی میں بیٹھنے میں کوئ مضائقہ نہیں ہے۔ اس سے آپ کو کچھ اچھا ہی سیکھنے کو ملے گا۔

میرے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ سکول سے جب والدین اپنے بچے کو پک کرنے آتے ہیں تو وہ دوسرے والدین سے فون نمبرز کا تبادلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ ان کے بچے سکول کے علاوہ کسی ویک اینڈ یا برتھ ڈے وغیرہ پر بھی مل سکیں۔ بچوں کی سوشل لائف کے حوالے سے یہ ایک بہت اچھی کوشش ہے۔ بچوں کے حوالے سے کی جانے والی کسی بھی عملی کوشش کا آغاز گھر سے ہی ہوتا ہے۔ یعنی پہلے ہمیں خود اپنے بچے سے باتیں کرنا اور اس کو سننا ہوگا۔ بچوں کا الگ تھلگ اپنے کمروں میں رہنا اور وہیں پر کھانا کبھی کبھار تو جائز ہے لیکن اسے روٹین نہیں ہونا چاہیے۔

فیملی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، دن میں کوئی ایک کھانا سب کو اکھٹے کھانا چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل انتہائی چھوٹے بچے بھی سیل فون اور ویڈیو گیمز کے ساتھ کھانا کھاتے نظر آتے ہیں۔ کچھ بچے فطری طور پر کم گو ہوتے ہیں اور کچھ باتونی اور کچھ جان محفل، جس طرح ہم لوگ سب الگ الگ مزاج کے ہوتے ہیں۔ لیکن روزمرہ کی بنیاد پر بچوں سے بات چیت بہت اہم ہے۔ ورنہ وہ ہر چیز خود اپنے اندر رکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔

بچوں کی سوشل لائف کے حوالے سے ان کی کھیل کود اور سپورٹس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ کھیل کا میدان صرف ہار جیت نہیں سکھاتا بلکہ بچوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ پینگ یا جھولوں پر باری لینے کے لئے بچوں کو بہت سی باتیں کرنا، دھکم پیل کرنا، اور چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑنا بھی آ جاتا ہے۔ پھر والدین کے سمجھانے پر صلح بھی کر لی جاتی ہے۔ یہیں سے بچوں کو بڑے ہو کر اپنی جنگ خود لڑنے کی عادت بھی ہو جاتی ہے۔

کھیل کے میدان سے نکل کر جب بچے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو بھی انہیں سوشل لائف اور دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ لڑکپن اور نوعمری کی دوستیاں تو ماں باپ اور گھر والوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا نے ہر طرف تہلکہ مچا رکھا ہے۔ تفریح اور وقت گزاری کیلئے پوری دنیا آپ کی دسترس میں ہے۔ اس تفریح کے سمندر میں ڈوب کر آپ کو وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ نہ ہی بوریت اور تنہائی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ صحت مند رویہ نہیں ہے۔

سوشل لائف کی ابتدا تو گھر ہی سے کریں گے، گھر کے تمام افراد کے درمیان رابطہ ضروری ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، میاں بیوی اور بچے، سب کو ایک دوسرے کی بات سننی اور سمجھنی چاہیے۔ اگر ایک فریق اپنی بات ہی سناتا اور منواتا رہے گا تو فیملی میں عدم توازن پیدا ہو جائے گا۔ بچوں کی بات پوری توجہ سے سننے سے ان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

اگر والدین اپنی ملازمت یا سوشل لائف میں حد سے زیادہ مصروف ہو جائیں اور بچے کو صرف سکول، ہوم ورک یا ٹیوشن تک محدود کر دیں تو اس صورت میں بچے سے رابطہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ والدین کا کردار ادا کرنے کے ساتھ آپ اپنے بچوں کے اچھے دوست بھی بن سکتے ہیں۔ سخت گیر استاد کی طرح ان ہر اپنا خوف مسلط نہ کریں کہ وہ آپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا کر اپنا کوئی بھی مسئلہ بتانے سے گریز کریں۔

سوشل ایکٹوٹیز کا حصہ بننے والے لوگ صحت مند دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ ہر وقت پارٹی یا ہجوم میں گھرے رہیں۔ بلکہ فیملی ڈنر یا دوستوں، رشتہ داروں کے ساتھ گزارے گئے وقت کو بھی بامقصد طریقے سے انجوائے کیا جا سکتا ہے۔ سوشل ورک کے ذریعے ہم وہ سارے کام کر سکتے ہیں جس پر ایک فلاحی معاشرہ کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر ہم بہت مصروف ہیں تب بھی ہمیں سماجی طور پر متحرک رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ورنہ تنہائی اور ڈیپریشن کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ تکلفات کے چکر میں نہ پڑیں۔ جو لوگ ہمیں برسوں سے جانتے ہیں ان کے ساتھ اپنائیت اور خلوص کا رشتہ ہوتا ہے۔ اسی رشتے کی ڈور کو تھام کر مضبوطی سے چلتے رہیے، آپ خود کو تنہا محسوس نہیں کریں گے۔ یہ احساس رکھنا کہ مجھے کسی کی ضرورت نہیں، میں اکیلا ہی ٹھیک ہوں، خود پسندی کے منفی رویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔

جانے والوں سے رابطہ رکھنا

دوستو رسم فاتحہ رکھنا

ملنا جلنا جہاں ضروری ہے

ملنے جلنے کا حوصلہ رکھنا

عمر کرنے کو ہے پچاس کو پار

کون کس جگہ ہے، پتا رکھنا۔

Check Also

Doctor Asim Allah Bakhsh

By Amir Khakwani