Respect Begets Respect
ریسپیکٹ بجیٹس ریسپیکٹس
وقت کے ساتھ معاشرے میں بہت سی اقدار بدل چکی ہیں۔ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیا ہم معاشرتی طور پر اخلاقی قدروں اور آداب زندگی سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟ کیا ہمیں اس حوالے سے کسی چیلنج کا سامنا ہے؟ کیا ما حول اور حالات اس میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کچھ دہا ئیا ں پہلے ہی کی بات لے لیں۔ گھرؤں، تعلیمی اداروں، دفاتر اور روزمرہ کے معاملات زندگی میں عزت واحترام کی جو مثالیں دیکھنے میں آتیں تھیں، آج کل نا پید ہیں۔ اعلی اخلاق و آداب دراصل ایک معاشرے کے حسن اورارتقا کا ذریعہ ہیں۔
لہجے کی شائستگی آج کل امر محال نظر آ تی ہے۔ کسی بھی مشکل صورتحال میں ہم مہذب گفتگو سے تندوتیز گولہ باری میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا تے۔ دوسرے شخص کی بات سننا بھی اس کے احترام کے زمرے میں آتا ہے۔ بات سنتے ہوئے قطع کلامی سے گریز کریں۔ اپنے علاوہ دوسروں کی قابلیت کا اعتراف بھی کریں۔ ایسا خاص طور پر work environment میں بہت ضروری ہے، جہاں اکثر کشادہ دلی ذرا مشکل ہو جاتی ہے۔
عزت نفس سے ہر حرف کو اونچا رکھو۔اپنی آواز نہیں، ظرف کو اونچا رکھو۔کسی بھی انسان کی کامیابی میں اس کے والدین اور اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن آج ہمارا استاد بھی عزت و تکریم کے حوالے سے اپنا مقام کھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ آج ہمارے استاد کو عزت ووقار کے ساتھ معاشی مسائل بھی در پیش ہیں۔ تصویر کا دوسرا اور افسوس ناک رخ یہ ہے کہ کہیں اساتذہ کا کردار بھی مثالی نہیں رہا۔ بدلتے وقت کے ساتھ اس میں غفلت اور کوتاہی ہوئی ہے۔ ہزاروں یا سینکڑوں اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔ اسا تذہ کا بھی طلبا کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ایما نداری سے نبھا ئیں۔ اگر استاد ہی راستہ بھٹک جائے تو شاگرد اپنی منزل تک کیسے پہنچے گا؟
کسی ذہنی یا جسمانی معذوروی کا شکار بچوں یا افراد کی طرف ہمارے رویوں میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے افراد کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سکول لیول ہی سے ان کے لئے سپیشل کورسز اور اساتذہ موجود ہوتے ہیں۔ جو ان کی جسمانی اور ذہنی ضرورت کے مطابق ان کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں کچھ کم علم اور کم فہم لوگ ان کی طرف تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جو کہ دینی اور دنیاوی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔
والدین کے علاوہ ہمارے دوسرے رشتوں جیسے بہن بھائی، عزیزواقا رب یا ازدواجی رشتوں کی بنیاد بھی عزت واحترام ہی ہے یہ رشتے ضرورت، حالات اور مفادات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ان رشتوں میں بھی بدلاؤ آ گیا ہے۔ لیکن آج بھی کشادہ دل، اعلی ظرفی اور خلوص دل سے ا ن رشتوں کی ڈور کو مضبوط بنا یا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بھی اگر عز ت واحترام کو نکال دیا جائے، تو یہ اپنی خوبصورتی کھونے لگتے ہیں اور ان میں زہر گھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
اگر والدین اور بچوں کے درمیان احترام کی بات کی جائے تو وقت کے ساتھ اس میں کافی تبدیلی اور چیلنجز آئے ہیں۔ بچپن سے ٹین ایج میں جانے کے بعد بچوں کے رویہ میں تبدیلی آنا ایک فطری عمل ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی گھرانوں میں والدین کی تمام عمر بچوں کو اپنے وسائل کے مطابق زندگی کی آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے میں گزر جاتی ہے۔ اولاد کے لئے تمام تر قربانیاں دینے کے بعد جب وہی بچے والدین کے لئے عزت واحترام کا مظاہرہ نہیں کرتے تو بلاشبہ یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ بعض اوقا ت تو آج کل نئی جنریشن خود کو والدین سے زیادہ عقل مند تصور کرتی ہے۔ لیکن والدین تووقت اور حالات سے سیکھ کر اس کتاب کی مانند ہوتے ہیں جس کا ہر لفظ بچوں کی رہنما ئی کر سکتا ہے۔
اگر مذہبی حوالے سے بات کی جائےتوہمارے دین نے والدین کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔ لیکن عزت واحترام کے حوالے سے آج والدین اور بچوں کے درمیان صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ اس معاملے میں کچھ کوتاہی ہم سے بھی ہوئی ہے۔ بحیثیت والدین ہم نے تمام زور بچوں کو پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بننے پر صرف کیا۔ لیکن ان کی تربیت کے معاملے میں ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ بچے والدین کی آراء سے اختلاف کرتے ہوئے احترام کا دامن بھی چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے مذہب کی اہم تعلیمات میں والدین کی عزت اور احترام شامل ہے۔ بچے اس پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ ترقی کا مطلب ہرگز اپنی بنیاد کو چھوڑ دینا نہیں ہے۔
اپنے بچوں کو پیار ، اعتماد اور سب سے اہم یہ کہ اپنا وقت دیں۔ وقت دینا سب سے اہم اس لئے ہے کہ آپ اور بچوں کے درمیان رابطہ موجود رہے۔ بچوں کو بحیثیت والدین کچھ بھی سکھانے یا سمجھانے کے لئے یہ رابطہ بہت ضروری ہے۔ ا نہیں دنیا میں خوداری اور یقین کے ساتھ جینا سکھائیے۔ انہیں کبھی بھی عزت واحترام کی لکیر کو پار کرنے کی اجازت نہ دیں، اور نہ ہی اس پر سمجھوتہ کریں۔
کیونکہ اس رویہ کو برداشت یا نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس رویہ کو قبول کر رہے ہیں۔ بچوں کی خواہشات بھی ایک حد تک پوری کریں، تاکہ آگے چل کر وہ خودسر یا انا پرست نہ بنیں۔ ہمارا بچہ، ہمارے ہی ماحول کی پیداوار ہے۔ اور پھر بعد میں اس پر بیرونی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس لئے ہماری اپنی شخصیت اور گھر کے ماحول کو بھی عزت واحترام کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ کیو نکہ بچہ زبا نی کلامی باتوں سے نہیں، بلکہ ہمارے عمل اور ماحول سے سیکھتا ہے۔
ہم کبھی اپنے گھروں میں کسی دوسرے شخص یا کسی رشتہ دار کے لئےتلخ وترش الفاظ استعمال کر جاتے ہیں خواہ وہ کسی واقعہ یا تجربہ کی پیداوار ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ آپ کا بچہ اس سے منفی طور پر بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ بچوں کی عزت نفس کو کبھی نشانہ مت بنائیں اور طنز سے گریز کریں۔ ان کی کسی کمزوری یا خامی کی منفی انداز میں نشاندہی مت کریں۔ کیو نکہ منفی باتیں انسان کے ذہن میں ایک تکلیف دہ یاد بن کر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ معروف سکالر pam leo اس حوالے سے کہتی ہیں
" You can not teach children to behave better by making them feel worse. When children feel better,they behave better."
یقین رکھیے کہ بچوں کے حوالے سے محبت اور عزت دونوں ہی بہت اہم ہیں۔ انہیں، محبت کے ساتھ عزت بھی دیں تا کہ وہ بھی ہماری عزت کریں۔ دراصل عزت اور محبت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر کسی بھی رشتے سے عزت واحترام ختم ہو جائے تو محبت اور احساس دونوں مر جاتے ہیں۔ ایک محترم بزرگ کی نصیحت ہے کہ اپنے بچوں کو سب کچھ دیں لیکن ساتھ ہی" اپنا کھیسہ " مضبوط رکھیں۔ تاکہ غیر متوقع حالات میں آپ کو معاشی تنگ دستی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔