Rait Ki Manind Hue
ریت کی مانند ہوئے
اپریل کا مہینہ اختتام پذیر ہے۔ آج کل ٹورنٹو کا موسم لاجواب ہے۔ موسم سرما کے بعد ہلکی سنہری دھوپ سے سجے یہ روشن دن اللہ تعالی کی خاص نعمت ہیں۔ ٹورنٹو کے موسم سے شاکی لوگوں کے پاس آج کل گلہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ موسم کے باعث واک کرنے والوں لوگوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ایسے جی دار لوگ بھی نظر آتے ہیں۔ جو شدید سردی میں بھی ایک ناغہ تک گوارا نہیں کرتے۔ میرے پڑوس میں رہنے والی خاتون کرسٹینا کا شمار بھی انہیں جی دار اور مستقل مزاج لوگوں میں ہوتا ہے۔ 77سال کی عمر اور اس سے متعلقہ طبی مسائل کے باوجود کرسٹینا اپنے روزمرہ کے کام خوش اسلوبی سے انجام دینے کے ساتھ ساتھ پابندی سے واک بھی کرتی ہیں۔ ان کی فیملی زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اس میں کرسٹینا، ان کے شوہر جان اور ان کی بلی timbit شامل ہیں۔ کرسٹینا باغبانی میں بےحد دلچسپی رکھتیں ہیں۔ ان کے دن کا زیادہ ترحصہ اس میں ہی میں گزرتا ہے۔ covid-19 اور موسم کی وجہ سے پچھلے چند مہینوں سے کرسٹینا کودیکھنےکا اتفاق نہیں ہوا۔
چند روذ پہلے جب میں واک کے لیے نکلی تو اسی وقت مجھے کرسٹینا کا گیراج بند ہونے کی آواز آئی۔ میں نے انہیں ہیلو کہنے کے لئے کچھ توقف کیا۔ کچھ منٹوں کے بعد کرسٹینا باہر آئیں، لیکن آج وہ اکیلی نہیں بلکہ واکر کے ساتھ تھیں۔ انہیں نے اپنا توازن واکر کی مدد سے برقرار رکھا ہوا تھا۔ میں نے کرسٹینا کی طرف دیکھ کر ھاتھ ہلا یا توانہوں نے بھی جوابا ہیلو کہا۔ قریب آنے پر کرسٹینا نے مسکراتے ہوئےموسم کی تبدیلی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور ساتھ ہی بتایا کہ ڈاکٹر نے ان کے طبی معائنہ کے بعد انہیں آگاہ کیا ہے کہ انہیں پارکنسنن کی بیماری نے آگھیرا ہے، اور ان کا علاج شروع ہو چکا ہے۔ کرسٹینا کو بائے اور wish you all the best کہنے کے بعد میں نے اپنا راستہ لیا اور وہ اپنے راستے پر چل پڑیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ کرسٹینا کی پارکنسن سے جنگ اب صرف جسمانی ہے کیوں کہ ذہنی طور پرتو وہ اسے شکست دے چکی ہیں، یا کم ازکم خوشدلی سے سمجھوتہ ضرور کر چکی ہیں۔ اور اس سمجھوتے کا زندہ ثبوت ان کی مسکراہٹ اور وہ جذبہ تھا جس کے ساتھ وہ آج بھی اپنی واک پر جا رہی تھیں۔ کیوں کہ کرسٹینا جیسے لوگوں کے نزدیک بڑھاپا جسمانی شکست و ریخت کا نام نہیں، بلکہ بڑھاپا تھکی ہوئی سوچ کا نام ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق پینسٹھ سال سے اوپر کے افراد کو بڑھاپے کی زون میں مانا جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق بڑھتی ہوئی عمر کا خوف یا ڈر انسانوں کو وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیتا ہے۔ حالانکہ بڑھاپے کا خوف لایعنی اور بےمقصد ہے۔ کیونکہ ہم اسے روک نہیں سکتے۔ ہاں، ہمارے زندگی گزارنے کے انداز اورgenatic factor کی وجہ سے بڑھاپے کا آغاز جلدی یا دیر سے ہو سکتا ہے یا اس کا اثر کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ بڑھاپے کا تعلق انسان کے ذاتی رویے سے بھی ہوتا ہے یعنی آپ خود اس بارے میں کیا سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کیلئے اس حقیقت کا ماننا بھی ذرا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ بڑھا پے کی بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ بڑھاپا ایک حقیقت ہے اور یہ اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ زندگی میں صحتمند طرز زندگی اور اعتماد بڑھاپے سے جنگ میں آپکے بہترین ہتھیار ہیں۔ بقول شاعر
ریت کی مانند ہوئے لڑھکے جو کوہ عمر سے
ہم نوکیلے پتھروں کو وقت ریشم کر گیا
میڈکل سائنس کی ترقی کے باعث ماضی کے مقابلے میں آج کل بزرگ افراد کی زندگی زیادہ بہتر اور صحت مند ہے ۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بڑھاپا مشکل تو ہے۔ مختلف بیماریاں جیسے ڈیمینشا یا الزائمر، پارکنسنن، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ انسان کا گھیراؤ کرنے لگتی ہیں۔ امریکہ میں کی گئی ایک ر یسررچ کے مطابق وہ افراد جو بڑھاپے میں ذہنی اور جسمانی طور پر فعال رہتے ہیں۔ ان پر عمر رسیدگی کے اثرات کم مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک رویہ بہت افسوس ناک ہے کہ بوڑھوں کو کسی نئی چیز کو سیکھنے میں ان کی ہمت بندھا نے کا قطعا رواج نہیں ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں ارنسٹ نامی ایک باورچی نے ستر سال کی عمر میں کمپوٹر خریدا اور اسے سیکھا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوتے ارنسٹ نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا دماغ چلتا رہے۔ بڑھاپے میں بعض افراد کو دین کے زیادہ قریب ہوتے بھی دیکھا جاتا ہے۔ شاید وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ان کے پاس اپنے رب کے لئے زیادہ وقت ہے۔ خطا کا پتلا انسان جلد یا دیر سے جب بھی اپنے معبود کو پکارتا ہے تو ہمیشہ اسے اپنے ساتھ ہی پاتا ہے۔ اللہ کی رحمتوں کا دامن ہم انسانوں کی سوچ سے بہت زیادہ وسیع ہے۔
بزرگوں کی طرف نوجوان نسل کے رویہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کے پاس بیٹھ کر ان کی زندگی کے تجربات سے کچھ سیکھنےکے لئے نوجوانوں میں صبر اور دلچسپی، دونوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس رویہ کی کئی مثالیں دیکھنے میں آتیں ہیں۔ مثلا بوڑھے لوگوں کے آہستہ آہستہ چلنے پر جھنجلاہٹ کا اظہار کرنا، ان کا ایک ہی بات کو دہرانے کی عادت سے چڑ جانا وغیرہ۔ شاپنگ کے بعد کیش کاؤنٹرز پر بزرگ افراد جب پےمنٹ کرنے میں دیر لگاتے ہیں تو ٹین ایجرز یا young cashiers کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ بات قابل تعریف ہے۔ کہ نئی نسل بوڑھوں کو دیکھ کر اپنی سیٹ ضرور چھوڑ دیتی ہے۔ اگر گھروں کی بات کی جاۓ تو یہ امر قابل افسوس ہے کہ بعض گھرانوں میں بزرگوں کو وہ احترام اور توجہ نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ گھریلو اور سماجی معاملات میں اکثران کی راۓ کو نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بزرگوں کے دماغی عارضوں کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کے برعکس آج بھی وہ خوش نصیب گھرانے موجود ہیں۔ جہاں اولاد بزرگوں کا ہر معاملے میں خیال رکھتی نظر آتی ہے۔ ان کے ذہنی وجسما نی مسائل کو حتی الامکا ن سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ گھر کے بچے اور جوان ان کے ساتھ کچھ وقت بتانے ہیں۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کی ایک تخقیق کےمطابق عمر رسیدہ افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی تنہائ ہے اور پھر یہ تنہائی دھیرے دھیرے ڈیپریشن کو جنم دیتی ہے۔
بڑھاپا تو ایک چیلنج ہے ہی، اس کے ساتھ آنے والی تبد یلیو ں کو قبول کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ مایوس اور خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے پوری توانائی اور مثبت سوج کے ساتھ گزاریں۔ زندگی کے معاملات میں متوازن رویہ اپنائیں۔ یہ نہ سوچیں کہ بڑھاپا آ گیا ہے اور اب میرے لئے زندگی میں کیا رکھا ہے؟ اور نہ ہی اپنی ہمت اور توانائی کو آزمائش میں ڈالیں اور ماضی میں اپنی طاقت اور توانائی کو یاد کر کے رنجیدہ ہوں۔ آپ کے نزدیک جو بھی لوگ ہوں ان سے محبت کریں اور ان کی قدر کریں۔ دراصل بڑھاپا گزارنا بھی ایک ہنر ہے۔ اگر ہم یہ ہنر سیکھ لیں گے، تو بڑھاپا بھی خوبصورت ہو سکتا ہے۔ بقول حمیدہ شاہیں
ذرا سا لڑکھڑائیں توسہارے دوڑ کر آئیں
نئے اخبار لاکر دیں، پُرانے گیت سُنوائیں
بصارت کی رسائی میں پسند یدہ کتابیں ہوں
مہکتے سبز موسم ہوں، پرندے ہوں، شجر ہوں تو
بڑھاپا خوب صورت ہے۔۔۔