Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Plan B

Plan B

پلان بی

آج کل ہر طرف بچوں کے امتحانات کا ذکر ہے۔ ایسے میں پورے گھر کا ماحول ہی کچھ الگ سا ہوتا ہے۔ والدین بھی بچوں کے ساتھ ہی فکر مند نظر آتے ہیں۔ امتحانات کا پورا شیڈول نوٹ کر لیا جاتا ہے، تاکہ اس حوالے سےگھر میں کسی قسم کی بدمزگی یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑ ے۔ بچے بھی بھوک پیاس اور نیند کی پروا نہ کرتے ہوئے جی جان کی بازی لگا دیتے ہیں، کہ امتحانات میں اعلی نمبروں سے کامیاب ہو سکیں۔

والدین کی طرف سے ا چھے نتائج لانے پر انعامات اور سیروتفریح وغیرہ کے وعدے بھی کیے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو آج بھی اپنے امتحانات کا زمانہ یاد ہو گا۔ ان یادوں میں نیند کی کمی کے باعث سوجی آنکھیں لئے، فکر کے مارے بغیر کچھ کھائے پئے سکول جانا اور پیٹ میں درد وغیرہ کافی مانوس سے لگتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ خواہ آپ عمر کے کسی حصے میں بھی ہوں، امتحان کا اپنا ایک خوف تو ہوتا ہے۔ اور ہر کوئی اپنے طریقے سے اس پر قابو پاتا ہے۔ اسی طرح ہر طالب علم کا امتحانات کی تیاری ا ور پڑھنے یا مطالعه کرنے کا طریقہ بھی الگ ہی ہوتا ہے۔

ہم بحثیت والدین اپنے بچوں میں ناکامی کے خوف کا بیج بوتے ہوئے اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ اگر ہمارا بچہ بیرونی دنیا کے مقابلے، خطرات اور چیلنجر سے بے خبر ہی رہے گا، تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم نے اپنا فرض پوری طرح سے ادا نہیں کیا۔ لیکن اس خوف کے سائے میں پروان چڑھنے والا بچہ کہیں نہ کہیں اپنا وہ اعتماد اور یقین کھو بیٹھتا ہے جس کے سہارے اسے اپنی جنگ لڑنی تھی، اور بلا خوف و خطر آگے بڑھنا تھا۔ جیسے کہ کسی پرندے کی پرواز سے پہلے ہی اس کے پر کاٹ دئیے جائیں۔

آج کا طلب علم جب انعامات یا اعزازات لیتا ہے، تو ماں باپ کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔ کہ ہاں جو لائن میں نے اپنے بچے کے لئے منتخب کی تھی وہ اس پر سیدھا چلتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن آج ہم میں سے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچے کے لڑکھڑاتے قدموں یا منتشر سوچوں کو سہا را دینے کیلئے اسی فخر کے ساتھ آگے آتے ہیں ؟ یا اگر بچہ ااپنی مرضی کا پروفیشن منتخب کرنا چاہے تو اس کی رہنما ئی اور حوصله افزائی کرتے ہیں ؟

زندگی میں ناکامی کبھی اکیلے نہیں آتی، بلکہ اپنے ساتھ بہت سے منفی جذبات بھی لاتی ہے۔ مثلاً غم وغصہ، گھبراہٹ، شرمندگی، خوف ا ور ڈیپریشن و غیره۔ ا ور انسان جلد از جلد ان جذبات سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ اسی جلد بازی میں وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ناکامی بھی ذندگی کے مختلف تجربات میں سے ایک ہے۔ دراصل یہی آپ کو کامیابی کی طرف بھی لیکر جاتی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کھلے دل سے ناکامی کا استقبال کرنا یا اسے اپنانا مشکل یا پھر ناممکن ہے۔ کیوں کہ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ ناکامی کے بعد کچھ لوگ اپنا موازنہ دوسروں سے شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اپنی محنت کو بڑھانے یا دوبارہ کوشش کے بجائے دوسروں کی کامیابی پر کڑھنا، جو کہ ایک بیمار سوچ ہے۔

ہمارے ہی اردگرد ایسے بے شمار کامیاب لوگوں کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مقام پر ناکامی کا سامنا کیا تھا۔ لیکن یہی وہ لوگ ہیں جو خود کو ملامت کرنے کے بجائے اپنے اعتماد کو بحال رکھتے ہوئے بار بار کوشش کرتے ہیں۔ اور اپنے متعین شدہ دائروں سے باہر نکل کر کچھ الگ اور نیا سوچتے اور پھر کر دکھاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر پلان A ناکام ہو جائے تو پوری توجہ اور توانائی پلان B پر لگا دی جائے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جب ہمارے پاس پلان B ہوتا ہے تو ہم پلان A کے ناکام ہونے سے نہیں ڈرتے۔ کیوں کہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد کیا کرنا ہے؟ اس کا جواب ہم سب کے پاس ہوتا ہے۔

لیکن اگر بد قسمتی یا ذرا سی غلطی سے کوئی ناکام ہو جائے تو وہ اس کے بعد کیا کرے گا؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس کا جواب شاید زندگی کو ریس کا میدان سمجھ کر اندھا دھند بھاگنے کے بجائے اسے ہر لمحہ سیکھنے اور جینے میں پوشیدہ ہے۔ ہار جیت، کامیابی یا ناکامی اور مسترد کیے جانے کے احساس سے کہیں زیادہ اہم اپنے مقصد کے حصول کے لئے کی جانے والی کوشش ہے۔ لیکن ہم کوشش کی حوصلہ افزائی کے بجائے نتائج کو سراہنے کے عادی ہیں۔ اس صورتحال میں جو شخص دوسرے لوگوں کی پروا نہ کرتے ہوۓ مستقل مزاجی سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے، وہی کامیاب قرار پاتا ہے۔

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہو گی، وہ دیا رہ جائے گا

تا حد منزل توازن چاہیے رفتار میں

جو مسافر تیز تر آگے بڑھا، رہ جائے گا

آج کل طلبا میں پڑھائی، امتحانات اورملازمت کے حصول کے سلسلہ میں سخت مقابلہ نظر آتا ہے۔ وہ اس حوالے سے کچھ ذہنی دباؤ کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ کچھ طلبا غیر یقینی صورتحال سے گھبرا کر انتہائی سنگین قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔ اس میں والدین اور ماحول کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر ہم بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ان کواپنی مرضی کے ایک یا دو پروفیشنز تک محدود کر دیں گے تو یہ ان کی سوچ اور ذہنی استعداد پر پہرے بٹھانے کے مترادف ہے۔

آج ہمارے بچوں کو بیرونی دنیا میں سخت مقابلے اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہیں اپنی جگہ اور مقام بنانا ہے۔ ان کے شوق اور passion کو اہمیت دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ فیملی یا حلقہ احباب میں سے چند کامیاب پروفیشنز مثلا ڈاکٹر یا انجینر وغیرہ کو بچوں پر مسلط نہ کریں۔ اور ایک ہی گھر کے بچوں میں تعلیمی لحاظ سے تقابلی جائزہ بھی قطعا غلط ہے۔

ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جنہیں اپنے پروفیشن میں دس یا بیس سال گزارنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی دوسرا کام اس سے کہیں بہتر کر سکتے تھے جو وہ کر رہے ہیں۔ اس لئے طلبا کی کیرئر کونسلنگ بہت اہم ہے تاکہ وہ اپنا من پسند شعبہ چنیں، جس میں وہ اپنی صلا حیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکیں۔ اور پھر جب وہ عملی میدان میں آئیں تو اپنے کام کوانجوائے بھی کریں۔

زندگی میں پلان A کا حصول ہو یا پلا ن B میں کامیابی کی خواہش، محنت اور کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ ناکا می سے گھبرا جانا، اس کا ملبہ دوسرے لوگوں پر ڈال دینا، قسمت اور حالات کو مورد الزام ٹھرانا منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح کامیاب ہونے کے بعد ا ن لوگوں کو یاد رکھنا اعلی ظرفی کی علامت ہے جو ہماری کامیابی میں معاون اور مدد گار رہے ہوں۔ آپ اپنی آنکھوں سے خواب دیکھیں، اور ناکامی کو بھول کر سچے دل اور پوری لگن سے ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ خدا تعا لی کی مدد سے انہیں تعبیر ضرور ملے گی۔ یاد رہے زند گی کے سفر میں نہ تو کوئی کامیابی آخری ہے، نہ ہی کوئی ناکامی مستقل اور ہمیشہ کے لئے ہے۔

ہار ہوتی ہے، جب مان لیا جاتا ہے

جیت تب ہوتی ہے جب ٹھا ن لیا جاتا ہے

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar