Dar
ڈر
ڈر انسانی فطرت کا حصّہ ہے۔ انسان کا گرد و پیش ہونے والے واقعات سے باخبر رہنا، اور اپنے مستقبل کے بارے میں غوروفکر کرنا، اس کا بنیادی حق اور دانشمندانہ طرز عمل ہے۔ اگر اسے اس حوالے سے کسی قسم کی گھبراہٹ یا خوف محسوس ہو تو یہ بھی قطعی نارمل عمل ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ڈر انسان میں پاۓ جانے والے سات منفی جذبات میں سے ایک ہے۔ جس طرح زندگی میں سات مثبت جذبات اہم ہیں، اسی طرح یہ منفی جذبات بھی ہمارے اندازفکر پر اثراناز ہوتے ہیں۔ ہمارا brought up کچھ اس طرح کا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی ڈر یا خوف کا شکار رہتے ہیں۔ بچپن میں اند ھیرے کا ڈر، بلندی یا اونچا ئی سے ڈر، گہرے پانی یا پھر سمندر سے ڈر۔ کئی ہونہار طالب علم اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر وہ زندگی کی دوڑ میں ناکام رہ گئے تو ماں باپ کا سامنا کیسے کریں گے؟ ملازمت کیسے ملے گی؟ کبھی کاروباری خساروں کا ڈر۔ کبھی ٹھکرا دیے جانے کا خوف، تو کبھی رشتوں کوبنانے اور ان کو نبھا نے کا خوف نظر آتا ہے۔ کبھی ہم بیماریوں اور تنہائی سے ڈرنے لگتے ہیں توکبھی ہمیں بڑھاپے یا پھر موت کا خوف لاحق ہو جا تا ہے۔ کئی لوگوں کو سچائی یا حقیقت کا سامنا کرنے سے ڈر لگتا ہے تو کئی اپنے ماضی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کبھی ہمیں یہ ڈر ستانے لگتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اور اگر ہم اپنے ڈر کو شناخت نہ کر پائیں تو fear of unknown تو ہمیشہ سے موجود ہے۔
ڈر انسانی تجربات کی دین، یا ہمارے مشاہدے کی پیداوار بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ماضی کا کوئی نا خوشگوار حاداثہ یا واقعہ ذہن پر خوف کے اثرات چھوڑ جائے۔ لیکن ڈر یا خوف اس کے بغیر بھی اپنا وجود رکھتا ہے، جیسا کہ بہت چھوٹے بچوں حتی کہ نومولود بچوں کا ڈر جانا۔ خوف کا تعلق حسیات سے ہوتا ہے اور بلاشبہ بچے ان حسیات کے مالک ہوتے ہیں۔ بچے اس لحاظ سے خوش قسمت ضرور ہیں کہ وہ اپنے ڈر کا برملا اظہار کر سکتے ہیں۔ جب کہ بڑے ہو جانے پر بعض افراد اپنے ڈر سے جنگ میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اطراف لوگ حتی کہ ان کے اپنے بھی اس کو منفی انداز میں لیں گے اپنے ڈر کو قابل اعتماد لوگوں سے شئیر کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ والدین کا اپنے بچوں پر اعتماد اور ان کی سپورٹ بچوں کے خوف کو کافی حد تک کم کر دیتی ہے۔ بچوں کو اپنے مسائل والدین سے discuss کرنے میں ڈر محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ بچوں کو حد سے زیادہ توجہ فراہم کرنا بھی ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ کیوں کہ انہیں گھر سے باہر کی دنیا کا سامنا بھی کرنا ہے۔ بعض اوقا ت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم حا لا ت و واقعات کا جائزہ لیتے ہوۓ کچھ خوف اپنے دل میں پا ل لیتے ہیں، لیکن کسی سےپھی ان کا اظہار نہیں کرتے۔ اگر ہمارا وہ ڈر صیح ثابت ہو جا ئے تو ہم کہتے ہیں کہ دیکھا، وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا۔ لیکن اگر ہمارا ڈر یا خوف بے بنیاد ثابت ہو تو ہم دل میں خداتعالی کا شکر ادا کرتے ہوۓ خود کو وہمی قرار دے دیتے ہیں۔
خواب دلکش سہی، تعبیر سے ڈر لگتا ہے
اس د ل زار کو تقد یر سے ڈر لگتا ہے
آنکھ بھر آتی ہے جو اب ذراسی بات پہ بھی
جا بجا درد کی تشہیر سے ڈر لگتا ہے
ایک اور سوال جو ذہن میں ا ٹھتا ہے کہ کیا وہم بھی خوف ہے؟ وہم میں انسان ایسی چیزوں سے ڈرتا ہے جن کی کوئی خاص logic نہیں ہوتی۔ اس کو شک و شبہ والی کیفیت یا غیر یقینی صورتحال بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہم بے بنیاد خیالات کو جنم دیتا ہے اور پھر یہ خیالات ڈر اور خوف پیدا کرتے ہیں۔ دراصل وہم ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، اور میڈیکل سائنس میں اس کا باقاعدہ علاج موجود ہے۔ ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے خوف اور وہم کا علاج ڈھونڈنے جعلی پیروں، حکیموں اور مزاروں پر چلے جاتے ہیں۔
ڈر ایک فطری احساس ہے، لیکن مستقل ڈر یا خوف، گھبراہٹ یعنی anxiety کو جنم دیتا ہے۔ جس سے انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں متااثر ہوتیں ہیں۔ ان سب پر قابو پانے کے لئے خود اعتمادی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اور اس میں ہمارا ماحول اور بیرونی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے اندر کے خوف پر قابو پانے کے لئے سائیکا ٹرسٹ کی مدد لیتے ہیں۔ psychotherapy خوف یا وہم سے نکلنے کا بہترین علاج ہے۔ ڈاکڑ کے علاوہ وہ شخص جو پوری ایمانداری کے ساتھ آپ کی بات سنے، اور درست مشورہ دے سکے، آپ کے خوف یا ڈر سے لڑنے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ ادویات کے بغیر بھی خوف یا گھبراہٹ کا علاج ممکن ہے۔ جس میں ورزش، یوگا اور خود کو مثبت کاموں میں مصروف کرنا ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نامساعد حالات میں بھی اپنے اندر کے یقین کو زندہ رکھتے ہیں۔ اسی یقین کو ہتھیار بنا کر وہ اپنے خوف کا مقابلہ کرتے ہیں یعنی face your fear، اوروہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرہم اپنے ڈر کے مقاپل آ جائيں تو ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں۔بقول شاعر
جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے
انہيں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈراديا
وہ قدم قدم پہ بہک گئے
اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزاریں۔ ا پنی خودی کو ہمیشہ زندہ ہ اور کردار کو بلند رکھیں۔ خود سے ملتے رہیں، خود کو سمجھیں۔ انسانی معاشرہ میں رہتے ہوئے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ منفی باتوں کے ڈر کو اپنی زندگی پر حاوی مت ہونے دیں۔ ارد گرد کے لوکوں کا خوف انسان کو اس کی ذات میں تنہا کر دیتا ہے۔ زیادہ حساس لوگ بھی معاشر ے میں مس فٹ ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے اپنے رب کی رضا حاصل کریں۔ ڈر کو ختم کرنا ہے تو اس کا سامنا کریں۔ زندگی میں کامیابی کی طرف پہلا قدم بڑھانا ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ناکامی کا ڈر بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ڈر آپ کے ذہن کی پیداوار، اور ایک خیال ہے آپ کی توانائی اور صلاحیتوں کا دشمن ہے۔ ڈر اور خوف میں زندگی پسر کرنا بذات خود ایک جہاد ہے۔ سارے خوف بھلا کر صرف اپنے رب سے ڈریں ایسا کر نے سے آپ خود کو ڈر سے بہت دور اور اپنے رب کے بہت نزدیک پائیں گے۔ ايک خوف جس میں ہر صاحب کردار اور مومن شخص کو مبتلا رہنا چاہيے، وہ خوف خدا ہے۔ جو ایک بہتر انسان اور معاشرے کی بنیاد ہے۔