1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Beti Aur Peti

Beti Aur Peti

بیٹی اور پیٹی

کچھ دن پہلے اپنے فیملی فرینڈز سے ملاقات ہوئی۔ میز بان خاتون کے ساتھ گفتگو ہو رہی تھی۔ باتوں کے دوران ہی انہوں نے ذکر کیا، کہ وہ عنقریب پاکستان جا رہی ہیں۔ پھر اسی حوالے سے پرانی یادوں اور باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ ان کی ایک بات میری توجہ کا مرکز بنی۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کے گھر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچوں کی شادیوں کا وقت آیا، تو ان کے والد محترم نے کہا کہ وہ نہ تو اپنی بیٹیوں کو جہیز کے نام پر کوئی روایتی لمبا چوڑا سامان دیں گے اور نہ ہی وہ اپنے گھر میں آنے والی بہوؤں سے اس طرح کی کوئی توقع رکھیں گے یا مطالبہ کریں گے۔

حالانکہ وہ خود ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، اور مالی لحاظ سے متمول بھی تھے۔ مجھے یقین ہے کہ لکیر کے فقیر اس معاشرے میں، اس سوچ کے ساتھ انہیں بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا ہو گا۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں کسی قسم کی نئی سوچ یا تبدیلی کی بات کرنا یا اس کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہے۔ لیکن میری دوست کے والد محترم نے ایسا کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے بچوں کی اچھی دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کی بلکہ اپنی سوچ کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ اور جہیز کے روایتی تصور اور لین دین کا با ئیکاٹ کرتے ہوۓ مناسب طریقے سے اپنے سب بچوں کی شادیا ں کیں۔

آج ان کے تمام بچے ایک خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب انہوں نے اس کی شروعات کی تو انہیں ایسے لوگ اور خاندان بھی مل گئے، جنہوں نے ان کی اس سوچ کا خیر مقدم کیا۔ آج کا کالم ان کی اس سوچ کے نام ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

آج سے بیس یا پچیس سال پہلے بیٹیوں کی شادی اور جہیز کے متعلق ایک فکسڈ قسم کا مائینڈ سیٹ تھا۔ بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی گھر میں خوشی کے ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی پوری شدت سے اجاگر ہونے لگتا تھا۔ اکثر گھرانوں میں ان کی تعلیم وتر بیت سے زیادہ زور اس پر دیا جاتا تھا کہ بیٹی کے لئے جمع جتها کر کے جلد از جلد عزت وقار کے ساتھ گھرسے رخصت کر دیا جائے۔ بیٹی کے قد نکالتے ہی گھر میں حیثیت کے مطابق پیٹی یا پیٹیوں کا انتظام کیا جاتا تھا اور پھر دھیرے دھیرے ان کو بھرنے کا عمل شروع ہوجاتا۔ مالی اخراجات کی ذمہ داری باپ اور بھائیوں پر عائد ہوتی۔

مائیں بہت محبت اور چاہت سے دریاں، چادریں، بیڈ کور، لحاف اور برتن وغیرہ جمع کرتیں بلکہ کشیدہ کار اور ہنر مند مائیں تو چادروں اور تکیوں وغیرہ پراپنی چاہت کے بیل بوٹے بھی کا ڑھ دیتیں۔ وقت کے ساتھ اس رجحان میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور آئی ہے، لیکن آج بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ جہیز کے ساز و سامان یا زمین جائیداد کی بنیاد پر کی گئ شادیاں اکثر ناکام ہوتیں ہیں۔ آج شادی کو کاروبار یا مستقبل کی سیڑھی سمجھنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے۔ آج کی نوجوان نسل کو اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا جہاں خود پیدا کرنا چاہیے۔

آج بھی ذمہ داری کے حوالے سے جہاں لڑکوں کو کماؤ پوت اور والدین کا سہارا مانا جاتا ہے، وہاں لڑکیوں کو پرایا دھن سمجھا جاتا ہے۔ اور اس حوالے سے ان کی پرورش بھی لڑکوں سے کچھ الگ انداز میں کی جاتی ہے۔ صنف نازک وہ لفظ ہے جو ہم عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بیٹیاں ایک بہت بڑی ذمہ داری سمجھی جاتیں ہیں اور پھر وہ کافی بھاری ذمہ داریاں اٹھاتی بھی ہیں۔ کیوں کہ جہاں بھی گھر اور رشتے نبھانے کی بات ہو، تو زیادہ توقعات بیٹیوں سے ہی وابستہ کر لی جاتیں ہیں۔

اگرچہ بدلتے ہوئے معاشرتی ڈھانچے میں آج ہماری بیٹیاں بھی اپنے پیروں پر کھڑی اور مردوں کے شانہ نشانہ کام کرتی نظر آتیں ہیں۔ بہو بیٹی کا روایتی تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آج کی بیٹی اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا اور لڑنا جان گئ ہے۔ کچھ گھرانوں میں آج بھی کم عمر اور گھریلو بہو کو بیاہ کر لانے کا رواج موجود ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے اردگرد کا جائزہ لیں توایسی بہت سی مثالیں ملیں گی، جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ، با شعور اور بر سرِ روزگار لڑکیاں اپنے گھروں کو بطریق احسن چلا رہی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

ہمارے اردگرد ایسی بے شمارمثالیں موجود ہیں، جہاں جہیز کے نام پر دیا گیا سامان زندگی کے آزار اور مصائب کا سبب بن گیا۔ لالچ اور حرص کے ہاتھوں مجبور افراد اس آڑ میں گھر آنے والی بہو کا جسمانی اور ذہنی استحصال کرتے آۓ ہیں۔ آج ہمیں اپنی بیٹی کو تعلیم و تربیت کے ساتھ وہ یقین اور اعتماد دینا ہے، جس کی اہمیت اس سازوسامان اور پیٹیوں سے کہیں زیادہ ہے، جو ہم صرف مقابلہ بازی یا دکھاوے کی مد میں دیتے ہیں۔ آج جہیز کم لانے کی بنیاد پر جلا دی جانے والی بہو اس معاشرے کی ذہنی بیمار سوچ کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔ رشتے کے چناؤ کے وقت لالچی لوگوں سے رشتہ جوڑ کر اپنی بیٹی کو ذہنی اور جسمانی اذیت سے بچائیں۔ سامان دیمک کی نذر ہو جاتا ہے۔

سونا یا ہیرے موتی کھو دینے کا ڈر ہمیشہ انسان کی جان کے ساتھ رہتا ہے۔ دیگر سازوسامان بھی چند مہینےدادو تحسین برسنے کے بعد بے قیمت ہو جاتا ہے۔ دکھاوے اور نمائش کی دوڑ لا حاصل ہے۔ اس سے انسان کا اندر کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ اس میں جیت سکتا ہے۔ بیٹیاں خدا تعا لیٰ کی رحمت اور انعام ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو کمتر یا بوجھ سمجھنا ناشکری اور کم فہمی ہے۔ دونوں کی پرورش یک درجہ محبت اور احساس ذمہ داری کی متقاضی ہے۔ معاشرے سے فرسودہ اور بے بنیاد رسموں کے خاتمہ میں ہر شخص کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہی ہمارے دین اسلام کی اصل روح اور حکم بھی ہے۔

اگر آپ کسی محفل میں جہیز یا ان فرسودہ اور پیچیدہ رسومات کے بارے میں بات کریں گے، تو ہر کوئی اس کی مذمت کرے گا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج جہاں کم تعلیم یافتہ اور مالی لحاظ سے تنگی کا شکار افراد بیٹے کی شادی کو ایک کاروبار سمجھتے ہیں، تو وہیں صاحب حیثیت اور امراءدکھاوے کی زد میں ان رسومات کو ترویج دیتے نظر آتے ہیں۔ عملی زندگی کی جنگ لڑنے کے لئے ہماری بیٹیوں کو کپڑے لتے، زیور، کیش، کوٹھی یا کار کی نہیں، بلکہ اس علم اور اعتماد کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے گھر اور آنے والی نسلوں کو سنوار سکیں۔

Check Also

The Shah Andy

By Rauf Klasra