Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saba Javed
  4. Aik Paigham Waldain Ke Naam

Aik Paigham Waldain Ke Naam

ایک پیغام والدین کے نام

دوستو جہاں دور حاضر میں ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے وہیں ہم ایک سنگین مسئلے سے بھی دوچار ہیں اور وہ شاید ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔ بطور ماہر نفسیات میں گزشتہ دو برس سے والدین اور بچوں کے رویوں پر غور و فکر کر رہی ہوں۔ ایک مسئلہ جو والدین کو درپیش ہے وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مضامین کی تعداد اور نصاب کی مقدار ہے۔ ماہر نفسیات ہونے کے ناطے مجھے اس مسئلے کا تعین کرنے کے بعد اس کا حل بھی تلاش کرنا تھا لیکن یہاں حل سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس امر کی کہ ان عناصر کو جانا اور پہچانا جائے جو اس مسئلے کا سبب بنتے ہیں۔

دوستو جیسا کہ ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں والدین چونکہ اپنے بچوں کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں اسی لیے ان کا کہا گیا ہر ایک لفظ اور عمل بچوں کے لیے زندگی کے معیار کا تعین کرنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اگر ہم ایک عشرہ ماضی کی طرف سفر کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ایک ایسا وقت تھا جب سکولز میں انگریزی کی صرف ایک کتاب ہوا کرتی تھی جو ششم جماعت میں شروع کروائی جاتی تھی اس کے علاوہ بچوں کے پاس نصاب میں محض چند مضامین شامل ہوتے تھے۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب دنیا نے گلوبل ویلج بننے کا سفر شروع کیا تھا آج جب والدین اپنے بچے کو انگریزی پہلی کلاس سے ہی پڑھتے دیکھتے ہیں اور کتب میں اضافہ کا ادراک ہونے کے بعد وہ اس بدلاؤ کو اپنے بچے کے لیے ایک بوجھ محسوس کرتے ہیں بے شک والدین کی سوچ اور ان کی فکر بجا ہے لیکن آئیے سکے کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔

جس نصاب یا مضامین کی زیادہ تعداد کو بچے کے لیے بوجھ سمجھا جاتا ہے وہ اسکول میں داخلہ لینے سے پہلے ہی بچے کی زندگی کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں تین سال کا بچہ موبائل فون اور کمپیوٹر کے تمام فنکشنز اور اطلاق سے آگاہ ہے۔ وہ گلوبل ویلج میں مواصلات کے مختلف ذرائع سے مختلف لوگوں مختلف زبانوں ثقافت رسم و رواج سے آگاہی حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ اس کے لیے دنیا کا ادراک ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس کے لیے ہر چیز میں ورائٹی ہے۔ کپڑوں سے لے کر کھانے تک اور کھانے سے لے کر موبائل فون کے ماڈل تک وہ اس ورائٹی کو قبول کر لیتا ہے۔ اگر بچہ اس تنوع کو قبول کر لیتا ہے تو قابل فکر بات یہ ہے کہ پھر مسائل درپیش کیوں ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے والدین اپنے بچے کا موازنہ خود سے کرتے ہیں۔ ان کے بچے کے سکول کا ماحول، کتب کی تعداد، نصاب کی مقدار اور اس کے نتائج ان سب معاملات میں والدین بچے کا موازنہ خود سے کرتے ہیں۔ جبکہ اگر غور کیا جائے تو ان کے بچے کے لئے تو وہ کھیل بھی بدل چکے ہیں جنہیں کھیل کر وہ بچپن سے جوانی تک سفر طے کر چکے ہیں۔

بدلاؤ تو آنے والی نسلوں کے لیے قدم قدم پر ہے کیونکہ زندگی مزید پیچیدہ ہوگئی ہے اور ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن یہ پیچیدگیاں ہمیں محسوس ہو رہی ہیں کیونکہ ہم نے یہ بدلاؤ دیکھا جبکہ اس نوجوان نسل نے آنکھ کھلنے پر دنیا کو اتنا ہی پیچیدہ پایا تو ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں بلکہ زندگی کا ایک حصہ ہے۔ دوسری طرف والدین کی ڈیمانڈ ہے کہ بچہ اپنے سکول میں غیر معمولی کارکردگی بھی دکھائے۔ لیکن اس کو کسی پیچیدگی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔

ذرا تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھئیے کہ نامی گرامی شخصیات جو اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ان کی زندگی کیسی تھی۔ غیر معمولی نتائج کے حصول کے لیے ان عظیم لوگوں نے کیا طریقہ اپنایا۔ اگر ماضی کی چند شخصیات کی ہی بات کی جائے تو ہمیں ادراک ہوگا کہ ایسی شخصیات کبھی بھی چند مضامین تک محدود نہ تھیں۔ بو علی سینا جن کو نہ صرف مشرق بلکہ مغرب میں بھی طب میں ان عظیم لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے دنیا کو اپنے علم اور تجربات سے جگمگایا۔ اور اس جدید طب کا بانی مانا جاتا ہے بوعلی سینا ماہرطب، ماہر نفسیات ماہر فلکیات، مفکر، ریاضی دان اور شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اس وقت مریضوں کے علاج کے لیے میوزک تھیراپی کا آغاز کیا جو آج کے سائکالوجسٹ استعمال کر رہے ہیں۔

قابل فہم بات یہ ہے کہ زیادہ مضامین بچے کے لیے قطعی طور پر بوجھ نہیں ہوتے بلکہ اس رنگوں بھری دنیا کو سمجھنے کے لیے مختلف رنگوں کا کام دیتے ہیں۔ اس سے بچے کا دماغ بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ ایسے والدین جو اس بات کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بچے کی کتب کی تعداد بچے کی صلاحیت سے زیادہ ہے۔ وہ درحقیقت اپنے بچے میں اپنا خوف منتقل کرتے ہیں۔ کیونکہ بچے کو نہیں پتہ کہ کتب کی تعداد زیادہ ہے، کتابیں مشکل ہیں یا نصاب زیادہ ہے۔ یہ صرف اور صرف والدین ہیں جو اس بات کو بچے کو دیتے ہیں۔

بچے صرف اسی صورت بوجھ محسوس کرتے ہیں جب والدین بوجھ محسوس کرتے ہیں گزشتہ دو برس کے تجربات سے میں نے یہ دیکھا ہے کہ وہ والدین جن کو کتابوں کی تعداد یا نصاب سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ان کے بچوں کو بھی اس چیز سے مسئلہ نہیں بنتا۔ ان مسائل کے شکار محض وہ بچے ہوتے ہیں جن کے والدین بوجھ محسوس کرتے ہیں اور کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ اگر بچے کی بجائے اس کے والدین کی کونسلنگ کی جائے تو اس کے بعد بچے کی کارکردگی میں بہتری آ جاتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچے کی صلاحیتوں میں کمی نہیں ہے نہ ہی نصاب اس کے لیے بوجھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید دنیا کے جدید تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے۔

جیسا کہ قائد اعظمؒ کے مطابق کبھی علم حاصل کرنا ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا وہی آج علم حاصل کرنا اور جدید تقاضوں کے مطابق علم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ہمارا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat