Tu Wo Bad Khoo Ke Tahayur Ko Tamasha Jaane
تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے
چنو منو کی آپس میں شدید ناراضی تھی۔ دونوں کے درمیان ہر وقت بحث و تکرار کے ادور چلتے رہتے۔ چنو کو گمان تھا کہ عملیات و وظائف کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کے نتیجے میں وہ پاک صاف ہو چکا ہے۔ چنو نے ان گداگروں کی حمایت میں بھی بے شمار بیان داغے جو مانگ تانگ کر ہر سال سعودی عرب جاتے اور صدا کاری و اداکاری کے ذریعہ اپنے بنک بیلنس کے اضافہ میں سالہا سال سے مصروف عمل تھے۔ یہ بھی شنید ہے کہ وطن واپسی پر کچھ بھکاری حاجی لوگوں کی گری ہوئی نیکیاں بھی بیچنے کے لیے گٹھریاں ہمراہ لاتے۔ اس عمل کو تجارت کہا جاتا اور ہر پھیرے پر بہت سے پیر جنم لیتے اور نیکیاں بیچ کر خوب منافع کماتے۔
خوف خدا کی تسبیح جاپتے کچھ زمانا ساز پرہیز گار گرے ہوئے گناہ اور اپنے طبقہ کی اخلاقی خامیاں بھی سمیٹ لاتے اور فی سبیل اللہ اپنے اپنے علاقے میں چھوڑ دیتے۔ انھیں معاشرتی اخلاقیات کو تباہ کرنے میں استعمال کیا جاتا۔ ایسے غیر اخلاقی و انسانیت سوز پتھر گروہان میں گھل مل جاتے اور شعور سے عاری غبی دماغوں کو اپنے پن کا یقین دلاتے۔ بھکاریوں کی حمایت سے چنو کے مریدین میں اضافہ ہونے لگا۔ اب اسے منو سے سخت بدبو محسوس ہوتی۔ پرانے تعلق کی بنا پر منو جب بھی چنو سے بات کرنا چاہتا سر سید کے الفاظ میں دھیمی دھیمی بات چیت "یوں نہیں، یوں ہے سے واہ تم کیا جانو۔ تم کیا جانو سے نگاہیں بدلنے تک جا پہنچتی۔ چنو کی تیوری چڑھ جاتی۔ رخ بدل جاتا، آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتیں، باچھیں چر کر دانت نکل پڑتے۔
ٹوٹے پھوٹے لفظ تھوک اڑانے لگتے۔ باچھوں تک کف بھر آتے۔ سانس پھول کر رگیں تن جاتیں اور صفائی پاکیزگی کے زعم میں آنکھ، ناک، مونھ، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے۔ ضعیف۔ ضعیف آوازیں نکلنے لگتیں اور آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا کر چنو منو آپس میں بھڑ جاتے۔ اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں لپّا دپّی ہونے لگتی۔ بیچ بچاؤ کروانے والے اپنے اپنے پتھر پھینکتے رہتے۔ اب اس لڑائی میں فیمینزم و پدر شاہی گروہ بھی اپنے اپنے اوزار لیے شامل جنگ تھے۔ بلکہ یوں کہیے کہ مصروف جنگ تھے۔ چنو نے فتوی جاری کیا تھا کہ صرف برقعہ پوش خاتون ہی قابل عزت ہے۔
اس نے اپنے بیان کی مضبوطی کے لیے سابق وزیراعظم کا حوالہ بھی دیا اور سابق خاتون اول کی مثال بھی دی کہ کس طرح برقعہ نے ملک میں شعور کی باڑ لگائی کہنے کا مطلب تھا کہ" واٹ" لگائی۔ چنو کے فتوی کے ساتھ ہی مارکیٹ میں حجاب و برقعوں کے نت نئے ڈیزائن لانچ ہونے لگے۔ موتیوں، جھالروں والے حجاب پر بالوں کی لٹیں بھی لٹکائی جانے لگیں۔ تاکہ عزت و وقار کی بڑھوتی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ چنو کا دعوی تھا کہ اس پردہ پوشی میں سب مسائل کا حل ہے۔ بیان داغے جانے لگے کہ صرف اس عورت کی عزت ہوگی جو سر تا پا چادر میں لپٹی لپٹائی ہوگی۔ کم علموں کے لیے اس بیان کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔ مطلب عزت برقعہ کی ہے؟ یا رشتوں کی؟ کئی مردوں نے برقعہ لپیٹ کر فرار ہونے میں عافیت سمجھی اور لڑکوں کے برقعہ پہن کر گرلز کالجز میں جانے کے واقعات بھی سامنے آئے۔
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
بھکاری عوتوں نے برقعہ یاحجاب کے ساتھ چوراہوں پر ڈیرے جمائے اور خوب عزت کمائی۔ اس ترقی میں دستار، پگڑی یا ٹوپی کا کوئی ذکر نہ تھا۔ منٹو کا افسانہ " کرامات " یاد آ گیا، جہاں صاحب کرامات لوگوں کے گناہ دھونے کے لیے پیتا ہے اور آخر میں مصنوعی داڑھی چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور موجو کہتا ہے "وہ کوئی کرامات والے بزرگ تھے۔ ہمارا کام کرگئے اور یہ نشانی چھوڑ گئے۔ "اس نے ان بالوں کو چوما۔ آنکھوں سے لگایا اور ان کوجیناں کے حوالے کرکے کہا، "جاؤ، ان کو کسی صاف کپڑے میں لپیٹ کر بڑے صندوق میں رکھ دو۔۔ خدا کے حکم سے گھر میں برکت ہی برکت رہے گی۔ "برقعہ کو کرامت سمجھنے والے چنو کی قوم عورتوں بچیوں کو گھورنے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
کوئی فراڈ کرنا ہو۔ چوری کرنا ہو، عملیات کے نام پر مکر کرنا ہو، عزت و وقار کی کامیابی کے لیے چنو کے برقعہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اب اصل اور نقل کے نام پر حجاب و خضاب یوں گھل مل گئے ہیں کہ پہچان مشکل ہے۔ جہاں عورت کے بانجھ پن کو مردانہ کم زوریوں میں چھپایا جائے۔ جہاں کفن کو بھی کم لباسی سمجھا جائے۔ جہاں عورت کے تمسخر کے لیے اشعار پر قہقہے لگائے جائیں وہاں برقعہ کیا کر سکتا ہے۔ کتنے ہی چنو مذہب کی آڑ میں دوسروں کے گھروں میں جھانکنے کا شوق اور جذبہ رکھ کر اپنی صفائی اور دوسروں کا صفایا کر دیتے ہیں۔
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا