Neelay Parbaton Ke Uss Paar
نیلے پربتوں کے اس پار
جنگل، چاند رات اور کنہار ندی کے لافانی نغموں کے نام معتبر اظہاریہ ڈاکٹر عبید سرمد کا سفر نامہ "نیلے پربتوں کے اس پار" ہے جس کے دامن میں سفر کی تین پگڈنڈیاں ہیں جو سمے کے سمندر میں مل کر مشاہداتی شعور کی آبشار بناتی ہیں۔ تینوں سفر ناموں میں زمانی ترتیب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سفر نامہ نگار کی بصارت زمان و مکاں کے مجازی فاصلوں کو پاٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر عبید سرمد کے سفر نامہ میں چار موضوعات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ انسانیت، روحانیت، مشاہدات اور تجزیہ نگاری۔ ڈاکٹر صاحب مثبت نتائج کے ذریعے حل (solution) کی طرف نگاہ رکھتے ہیں۔ جو متانت، سادگی، ٹھہراؤ اور شائستگی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصا ہے، وہی ان کی نثر کی عبارت ہے۔ شمالی علاقہ جات کے مطالعاتی اور تفریحی دوروں میں انسانی تعلقات و نفسیات کی موشگافیوں کے ذریعے سرکاری محکمہ جات کے اسرار و رموز بھی ہیں جو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی تفسیر ہیں۔
سفر نامہ صرف مقامات کی تصویر نہیں بلکہ سفر نامہ نگار کے ذہنی رحجان کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے۔ مصنف کو سرسراتی خاموشیوں کے بھید معلوم ہیں اسی لیے اسے یقین ہے کہ "ایک دفعہ پھر سب اچھا ہو جائے گا"۔ اس اچھے کے لیے بھی ان کے ذہن میں واضح راستہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، "اردو بے چاری تو ویسے ہی ماڈرن میڈیا، موبائل فون میسجنگ وغیرہ کے ہاتھوں چیلنج کا شکار ہے۔۔ ہمارا بچہ چار زبانوں میں پھنسا ہوا ہے یعنی اردو، پنجابی، عربی اور انگلش۔ جبکہ انگریز بچے کی مادری، مذہبی، سرکاری و تعلیمی زبان ایک ہی ہے۔ زیادہ زبانیں ضرور سکھائیں لیکن مناسب عمر میں"۔
بد قسمتی سے ہم اپنے بچوں کو اسلامی اور غیر اسلامی کھانوں اور رویوں کی چکی میں پیس کر تھکے ماندے بے شعور ہجوم کا حصہ بنانے پر بضد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سمجھتے ہیں کہ "خواندگی اور تعلیم کا اثر رویوں پر پڑتا ہے اور رویےدیگر بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ آبادی کے کنٹرول میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں"۔ اس سفر نامہ میں سرکاری خو بو ہے نہ ہی"نذر نامے" بلکہ اس سفر نامہ کو ہم "نظر نامہ" کہیں گے۔ جس میں نہ صرف انسانی رویوں اور اخلاقی پستی کا بیان ہے بلکہ جا بجا ایسی خامیوں اور کوتاہیوں کا بھی تذکرہ ہے جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کا سبب ہیں۔
ادبی حسن اور رومانیت کا امتزاج کہیں یادوں کی صورت جاگتا ہے۔ "میں نے باہر سے ہی ان خاموش دیواروں کو چوما جو سرسوں رنگ کے ملبوسوں، غزالوں جیسی انکھڑیوں اور موم کے بنے ہاتھوں کی یادوں کی امین تھیں"۔ اور سفر نامہ نگار بے حسی، سرد مہری، لاتعلقی اور جدید مشینی رویوں کے اندھیروں کے رازوں کی گرہیں باندھتا چلا جاتا ہے۔ " مجھے اپنا سینہ بھی ان دیواروں جیسا لگا۔ یادوں کا مدفن۔۔ لیکن۔۔ یہ کیسا مدفن تھا۔ یہ تو ایک حسین ویرانہ تھا۔ ایک سرمدی گلشن تھا۔ جس میں یادوں کے ست رنگے پرندے چہچہاتے تھے۔ کبھی ختم نہ ہونے والا رنگ و نور کا ایک سلسلہ تھا"۔
رنگ و نور کا یہ خوش آئیند سلسلہ پورے سفر نامے میں موجود ہے۔ مصنف پتھر چت لوگوں سے دور بھاگتا ہے۔ دل و نگاہ کے زاویے صرف صورت بدلتے ہیں لیکن بنیاد زمین سے جڑی ہے۔ تغیر و تبدل کے اس کھیل میں صرف فطرت ہے جو اپنی صورت برقرار رکھتی ہے۔ ڈاکٹر عبید سرمد کی تنقید میں تصنع اور مبالغہ کا عنصر نہیں۔ بے لاگ، بے خوف رائے ہے جو شہرت و کامیابی سے بے نیاز ہے۔ وہ خود ستائی کو بلندیوں کے سفر کا ایندھن سمجھتے ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ مذہبی منافقت کے ڈھکوسلہ پر بھی راضی نہیں۔ وہ شکوہ کناں ہیں کہ امن کے لیے دشمنی کیوں ضروری ہے؟
مذہب اور آرٹ کی کیا دشمنی ہے؟ انسان بربادی دیکھے بغیر امن پر راضی کیوں نہیں ہو سکتا؟ نا انصافی اور ظلم پر مصلحت اور خاموشی فطرت انسانی کا معروف رحجان کیونکر ہے؟ ڈاکٹر عبید کے اس سفر نامہ میں ہر جذبہ تہذیب کی مجسم صورت ہے۔ ہر لفظ اپنی حدود سے وابستہ اور آداب و اقدار کے ضابطوں کا مجسم پیروکار ہے۔ سفر نامہ نگار ہر موڑ پر بھیگے دل اور اخلاص کی چادر اوڑھے مسکراتا نظر آتا ہے۔ گئے دنوں کی سلجھی دھوپ کے سائے میں تینوں زمانوں کے جلو میں پر وقار انداز میں بریفنگ سنتا اور دیتا نظر آتا ہے۔
دلچسپ عنوانات سے سفر نامہ نگار کی حس مزاح کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً "ہماری بیورو کریسی۔ بشیرا ان ٹربل، آباد ایجنسی کی بے آبادیاں، طور خم۔ بارڈر۔ بہت دنوں سے جوانی کے خواب ویران ہیں" مختصر یہ کہ اس سفر نامہ میں دوستوں کے مختصر ترین خاکے بھی ہیں اور محکمانہ پالیسی سازوں کی بے سری کہانیاں بھی۔ فطرت کے دل لبھاتے رنگ بھی ہیں اور انسانیت کے بجھتی تصویر میں رنگ بھرنے کی خواہش بھی۔ یَقِیناً ن"یلے پربتوں کے اس پار" اسلوب کی دل کشی کے حوالے سے جدت کی حامل ہے مجھے یقین ہے اس کتاب کو ادبی دنیا میں پذیرائی ملے گی۔