Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Kursi Re Kursi

Kursi Re Kursi

کرسی رے کرسی

کرسی اب محض کرسی نہ رہی تھی بلکہ چہرہ بدلنے کے فن میں طاق ہو چکی تھی۔ اس کی ٹانگیں امر بیل کی طرح پھیل کر آکٹوپس کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔ جس میں نہ صرف ماحول میں ضم ہو جانے کی زبردست صلاحیت تھی۔ بلکہ رنگ بدلنے سے لے کر اپنی جلد کی بناوٹ بدلنے اور وقت ضرورت مختلف شکلیں اختیار کر کے دوست، دشمن اور عوام جیسے بدھو شکار کو کھلا دھوکا دینے کی اضافی صلاحیت بھی پنپ رہی تھی۔ یہ بازی گر کھلا دھوکا دے رہے تھے۔

یہ سودا خوب بک رہا تھا، اور کھلی آنکھوں کے باوجود بھی عوام دامن بھر دھوکا کھانے کے لیے براضی و رضا تیار تھی۔ اس کے لیے یہ چیخ و پکار اور ناچ گانا بہت پرکشش تھا۔ کرسی کی مکاری اور ہوس اس کی ایسی خوبی تھی جو ہر دور کی عوام پر بھاری رہی ہے۔ اب تو حالت یہ تھی کہ کرسی کا ہر پایہ بھی خود کو کرسی ہی سمجھ کر شرفا اور گدی نشینوں پر اخلاق سے گرے آوازے بھی کس رہا تھا، اور چسکے لے کر انڈر گارمنٹس کی قیمت بھی بتا رہا تھا، بلکہ مسلسل اس کی تشہیر سے حظ اٹھا رہا تھا۔

کرسی کے کئی پایے تو کامن پن سے بھی زیادہ باریک اور تیکھے تھے، اور ان کا زہر خطرناک بچھو سے کم نہ تھا۔ حد تو یہ تھی کہ کرسی کے پائے پھیلتے پھیلتے امر بیل سے بڑھ کر رینگنے والے سانپ بن چکے تھے، جن کے زہر کا تریاق جلا وطنی کی طویل آزمائش بھی نہیں دھو پا رہی تھی۔ یہ کرسی کامن روم میں نہیں رکھی جا سکتی تھی، کیونکہ اس کی موجودگی کے مضمرات سنبھالنا پایوں کے بس کی بات نہ تھی۔

اب یہ کرسی نشے میں مست گردباد جیسی ریوارونگ چئیر بن چکی تھی، جسے گھومتے ہوئے احساس ہی نہ تھا کہ اس کی زد میں کون آیا ہے۔ کتنے لوگ مسلے گئے ہیں۔ کتنے جان سےگئے ہیں۔ زبردستی وارے جانے والوں کو شہید کا اسٹامپ پیپر جاری کیا جاتا تھا۔ لباس کی طرح کرسی بس گدیاں بدلنے میں مگن تھی۔ جہاندیدہ اذہان کسمساتے رہتے، بہتیرے توجہ دلاتے کہ او بھائیوں! یہ گدی تو کرسی کی ہے ہی نہیں۔

لیکن نقار خانے میں طوطی کی سنتا ہی کون ہے۔ ڈھول باجوں کی آواز ایسی کان پھاڑ دینے والی تھی کہ شریف لوگوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ بتانے والے چیخ رہے تھے، کہ انھیں آنکھیں کھلی رکھنا چاہئے۔ کبوتر ہر بار بلی کو دیکھ کر آنکھیں موند لے تو سر رہے گا نہ دستار۔ جدید کبوتر نے شاید جال والی کہانی نہیں پڑھی تھی۔ جہاں کبوتر دانہ دیکھتے ہی دانہ چگنے کے لیے باری باری نیچے اتر آئے اور انہیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ یہ دانہ شکاری نے بکھیرا ہے۔ اور اس کے نیچے جال لگایا ہوا ہے۔

جب کبوتر دانہ چگنے میں مصروف ہوئے تو شکاری نے جال کی رسی کھینچی اور سب کبوتر جال میں پھنس گئے تو بھی انھیں اس پریشانی کا صحیح ادراک نہیں ہو پا رہا تھا کہ جال سے رہائی ہی بنیادی ضرورت ہے۔ ہر گروہ کی طرح کبوتروں کے اس گروہ میں بھی ایک دانا کبوتر موجود تھا۔ اسی کی تدبیر سے کبوتر بچ سکتے تھے۔ اس نے سب کبوتروں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم بری طرح جال میں پھنس چکے ہیں، اب ہمارے پاس بچنے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ ہم سب متحد ہو کر اکٹھے اڑنا شروع کریں۔

اس طرح ہم جال سمیت اڑنے میں کامیاب ہو جائیں، گے کبوتروں نے بوڑھے کبوتر کی ہدایت پر عمل کیا اور سب متحد ہو کر اکٹھے اڑے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ وہ سب کبوتر تھے۔ ان میں سے کوئی بھی کرسی کا پایہ نہ تھا، سو جال ہوا میں بلند ہو گیا۔ کافی دور جاکر وہ جنگل میں نہر کے کنارے اترے جہان ان کا ایک دوست چوہا رہتا تھا، جس نے اپنے تیز دانتوں سے ان کا جال کتر دیا۔ جال میں امر بیل جیسا کوئی زہریلا کرسی کا پایہ نہ ہو تو آج بھی جال سمیت اڑا جا سکتا ہے۔

صرف تیز دانتوں والے چوہوں کی ضرورت ہے، جو اپنے جال کو کتر کر کرسی کے فالتو پائے بھی کاٹ سکیں۔ تاکہ امر بیل کی طرح پھیلے زہریلے پایوں کی پھنکار سے معاشرہ کو بچایا جا سکے۔ ہمیں ایسے زہر کی ضرورت نہیں جس سے ہارٹ اٹیک آتا ہے۔ ہمیں تو اس تریاق کی ضرورت ہے جو ہر زخم کا مرہم بن سکے۔ ڈاکٹر معین نظامی کا یہ شعر اس صورت حال کا خوب عکاس ہے۔

تم آ گئے تو حبس کا احساس بڑھ گیا

اس حال میں تو مجھ کو ضرورت ہَوا کی تھی۔

ہمیں بیماری کے نام جاننے سے کیا فائدہ جب ہمارے پاس دوا کی پرچی اور گولیاں نہ ملیں۔ ایسے سجدے کس کام کے جس میں خدا نہ ملے اور ایسی تسبیحات کا کیا فیض جس میں گدا کی پہچان نہ ملے اور وہ کبوتر ہی کیا جسے دغا نہ ملے۔ کرسی نے اپنے پایوں کی صورت جو زمین پر" پر" پھیلائے ہیں۔ وہ ایسا مایا جال ہیں، جس میں ملا، واعظ، عالم، منصف منبر سے لے کر گدی نشیں بھی ورغلائے جانے اور بکنے کے لیے تیار ہیں، اور انھیں دیکھ کر بے اختیار آواز آتی ہے، کرسی رے کرسی تری کون سی کل سیدھی۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam