Hum Ke Hero Nahi
ہم کہ ہیرو نہیں
تین سال ہو گئے تھے بادشاہ سلامت کی ہچکیوں میں اضافہ ہی ہو رہا تھا۔ بادشاہ کے لیے یہ ہچکیاں قطعی تکلیف دہ نہ تھیں بلکہ ان ہچکیوں کی بدولت بیرونی دورے اور آرام کے اوقات بڑھا دیے گئے تھے۔ درباری ڈاکٹروں کی ایک فوج موج ظفر تھی جو کھی تو رورو کر ایسے دعا کرتی کہ بچے بھی اسے مذاق سمجھتے اور کبھی ایسی دواوں کے ذریعہ بادشاہ سلامت کا علاج کرتے جن کا میڈیکل کی دنیا میں کوئی نام ہی نہ تھا۔
ہمہ تن و ہمہ وقت مشغول کارندے جانوروں کا روپ دھار کر عوام کی جانوں سے کھیلتے فتوحات پہ فتوحات کیے جا رہے تھے۔ وقت پڑنے پر اس درباری فوج میں اضافہ کیا جاتا تھا اور ایسا وقت صبح، دوپہر، شام کے اوقات میں کتنی ہی بار آتا۔ بادشاہ کی دیکھا دیکھی محکمہ صحت کے افسران نے بھی اپنے لیے دفتری اوقات میں تبدیلی کر لی تھی۔ دو بجے دفتر آ کر وہ رات گئے بیٹھا کرتےاور بادشاہ کو بتاتے کہ وہ کتنے کامی ہیں۔
سنجیدہ احباب اسے عامی ہی پڑھا اور سمجھا کرتے تھے۔ دیگر اشغال کے ساتھ یہ افسران ملازمین کو نوکری سے برخواست کرتے تو کبھی ان پر اپنا رعب ڈالنے کے لیے ان کی اے۔ سی۔ آرز خراب کر کے بادشاہ کے ہم منصب ہونے کی کوشش کرتے۔ درباری اکابرین کو بادشاہ سلامت کی ہچکیوں پر اتنی تشویش تھی کہ وہ علاج کی تلاش کے لیے بیرون ملک دوروں پہ دورے کرتے۔ جب واپس آتے تو ان کی حالت ہی بدل چکی ہوتی۔
عوام کو چپ کروانے کے لیے ہر نسل کے ٹائیگرز آگے کیے جاتے۔ بہت سے افسران نے اپنے لیے بلٹ پروف گاڑیوں کی ڈیمانڈ بھی کی جو فورا ہی قبول کر لی گئی۔ آخر ان کی بقا پر ہی تو بادشاہ کی بقا تھی۔ بادشاہ کو اس کے روحانی پیشواؤں نے رو رو کر یقین دلایا تھا کہ بہت سے افسران کے ہونے سے ہی بادشاہ کی حکومت مضبوط رہ سکتی ہے۔
ایک درد مند دانش ور نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ اس امکان کو مدنظر رکھےکہ کہیں دکھی عوام کے دلوں کی آہیں تو ہچکیاں نہیں بن رہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ عوام کے دامن اور آنسو بادشاہ سے انصاف کی منتظر ہیں۔ اس نے ان اساتذہ کا بھی ذکر کیا جنھیں جلایا گیا تھا اور ان کی آہیں ابھی رکی نہیں تھیں۔ بادشاہ کے ساتھیوں کو غصہ آ گیا اور انھوں نے بلند آواز پر کورس کی صورت یہ نغمہ چلا دیا۔
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
کہنے دو یہ لوگ جو بھی کہتے ہیں۔۔ ہو ہو ہو ہا
اس کے ساتھ روحانی پیڑ نے عوام کو فلائی کس کیے۔ بادشاہ کو یہ بری خبر سنانے پر اس دانشور کو جیل بھیج دیا گیا کیونکہ اس جاہل نے بادشاہ سلامت کی زندگی خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ بادشاہ کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر روحانی پیشوا کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے ساون کے موسم میں ہونے والی بارش کو اپنے آنسوؤں کی روانی قرار دے کر اپنے لیے خصوصی الاونس جاری کروایا اور اڑنے کے لیے گاڑی میں ایک کروڑ سے اوپر کے ٹائر لگوائے۔
بادشاہ کی ہچکیاں کسی صورت کم نہیں ہو رہی تھیں۔ اب تو ایسا تھا کہ بادشاہ کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں، صرف منہ کھلا تھا۔ اس تقلید میں سب حواریوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے منہ کھول دیے۔ منہ کیا کھلے، بہت کچھ کھل گیا جسے سمیٹنا اب جان کی بازی لگا کر بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے ایسوں کے بھی منہ کھل چکے تھے جن کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ قدرت نے انھیں زبان دے کر مخلوق خدا پر اور مملکت خدا داد پر بہت ظلم کیاہے۔ سو خصوصی فیض یافتہ مخلوق اب در در بٹ چکی تھی۔
ایک طرف لوگ بھوک سے مرتے تو دوسری طرف کے لوگ ناچ ناچ کر ہلکان ہو جاتے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں سو وہ دوسروں کے تاثر سے بے نیاز تھے۔ بادشاہ کی بیماری پر اخراجات بڑھتے جا رہے تھے۔ گھروں میں چولہے بجھا کر میلے ٹھیلوں میں ثقافت کی یلغار جاری تھی۔ ہر ماہ ایک میلہ منعقد کروا کر حواری بادشاہ پر صدقہ کرتے یہ الگ بات ہے کہ اس صدقہ کے حق دار صرف وہ ہی قرار پاتے۔
لوڈ شیڈنگ کے جلو میں شہر مصنوعی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنی حکومت سے قبل ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہر قسم کا چندہ پیٹ کی بجائے کھلے منہ میں بھرا جائے گا۔ سمجھیے یہ چندہ ان کے لیے انرجی سیل تھے جس سے ایسی مکروہ آوازیں بھی پھیلتی جا رہی تھیں جن کی وجہ سے 75 سال سے بیل کی طرح دائرہ میں گھومنے والی قوم بھی اس خصوصی دائرہ سے باہر نادیدہ دائرہ میں دیکھنے لگی تھی۔
بادشاہ کے حواری جب لہک لہک کر تان لگاتے اور للکارنے تو قوم کو سمجھ ہی نہ آتی کہ ہنسے یا روئے۔ ہنسنے میں عزت جاتی تھی اور رونے میں غیرت۔ خصوصی تیار کیے گئے لطائف قومی حمیت کی علامت بن چکے تھے حالانکہ ان کی سنجیدہ باتوں پر بھی اتنی ہی ہنسی آتی تھی۔ ایسے وزرا کو تمغے دیے جاتے جو اپنے علاقوں میں کبھی جھانکنے بھی نہ جاتے۔ اب کے قابلیت کا معیار بھی منہ کھولنا ہی قرار پایا۔ جن کی زبانوں کے آگے خندق تھی وہ اتنے ہی بڑے سورما تصور کیے جاتے تھے۔
بادشاہ کی ہچکیاں صرف اس کی ہی نہیں بہت سوں کی بقا کی ضمانت بن چکی تھیں۔ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر روتے تو بادشاہ کی ہچکیوں میں اضافہ ہو جاتا لیکن اسے یقین تھا کہ پوری دنیا اس کی جان کی دشمن ہے۔ میلے میں بجنے والے ڈھول خوش حالی کی وہ تصویر ہیں جن سے دنیا میں آگ لگ چکی ہے۔ انھوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہاہو کار کے یہ ڈھول اور زبان کے یہ گٹر جب تک کھلے رہیں گے دنیا سہمی رہے گی۔
چلتے چلتے ایک کہانی سنیے جس کا کالم اور بادشاہ کی ہچکیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ عام طور پر سرکس کے کردارو ں میں ماہر اور مشاق فنکار بھی ہیں جو رسے پر چل کر اپنی جان بھی گنوا دیتے ہیں اور تالیوں کی گونج میں رخصت ہوتے ہیں لیکن
اس کے جانے کے بعد
صرف پھندنے والی ٹوپی سےکوئی دوسرا وہی سارے کام کرنے کی کوشش کرے اور تالیاں نہ بجیں تو اس کے مداحین کا دل چاہتاہےسارے مجمعے پر پٹرول چھڑک کر سب اڑا دیں لیکن بس پٹرول کی مہنگائی آڑے آ جاتی ہے سمجھنے والوں کے لیے
رسی پکڑ کر جھولنے کی بازی گری مات بن جاتی ہے اور پھر ہچکیاں۔۔
کوئی اپنی مہارت کی داد وصول کرتا ہے اور کوئی منہ کھول کر پر مزاح آوازیں نکالتا ہے دونوں کی اپنی اپنی دنیا اور اپنی اپنی حیثیت ہے۔ لیکن سرکس کے مسخرے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔ اس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں۔ اس لیے وہ ہیرو والی داد چاہتا ہی نہیں بلکہ مسخرے والی داد پر خوش ہوتا ہے۔ شاید غلطی ہماری ہی ہے کیونکہ ہم کہ ہیرو نہیں ہم ولن بھی نہیں۔