Ghabrana Nahi
گھبرانا نہیں
قصائی نے بکرے کے گلے پر چھری رکھتے ہوئے کہا مجھ پر اعتماد رکھو اور گھبرانا مت۔ مگر مچھ نے منہ کھولا اور مچھلی سے کہا اعتماد رکھو گھبرانا مت۔ شیر نے ہرن کو دبوچا اور زخمی ہرن کو بھنبھوڑتے ہوئے دھاڑا، گھبرانا نہیں۔ شوہر نے بیوی کا ناک کاٹتے ہوئے کہا گھبرانا نہیں۔ رشتوں کی حرمت مجروح کرنے والے چلائے ہم پر اعتماد رکھیے۔ سیاسی پارٹی کے لیڈر نے عوامی مفادات کو آگ میں جھونکتے ہوئے نعرہ لگایا، گھبرانا نہیں۔ عوام کی سسکیاں بڑھنے لگی تو قبر کی مٹی کا مرہم لگایا گیا گویا عوام کو اس بار بھی چونا لگایا گیا۔
صورت حال یوں ہے کہ عوام کی دل آزاری اور اعتماد کے پاٹھ افق کی دوری پر ہیں۔ خوش حالی کے apps کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ سیاست میں عدم اعتماد(confidence) سے مراد ووٹ یا وہ بیان ہے جو کسی سرکاری یا تنظیمی عہدیدار کے خلاف دیا جاتا ہے کہ یہ عہدیدار مزید اس عہدے کو سنبھالنے کے لائق نہیں ہے تاہم اعتماد کسی بھی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہے۔ جس پر اعتماد نہ ہو اس سے کسی بھی قسم کا معاملہ تو ایک طرف بات چیت بھی ممکن نہیں ہوتی۔ عدم اعتماد کے معانی ہی اعتماد نہ ہونا یابھروسہ باقی نہ رہنا کے ہیں۔
ہم سب بھروسے کے ڈسے ہوئے لوگ ہیں۔ ہمیں لٹیروں کے ٹھکانے کا علم ہے لیکن اعتماد و عدم اعتماد کا تضاد یوں گڈ مڈ ہوا ہے کہ آنکھیں بند رکھنے میں ہی عافیت معلوم ہوتی ہے۔ سچائی کی تاک میں بجھتے تیر ہوا میں رقص کر رہے ہیں بچاو کے اقدامات ہمارے لیے نہیں۔ ووٹ خریدنے کی بولی میں عوام روندی جا چکی ہے۔ جس نے اعتماد کا ووٹ دیا اسے عدم اعتماد کا حق ہی نہیں۔ بلی تھیلے کے اندر رہے یا باہر آ جائے، گلے شکوے اور شکایات بڑھوتی پر آمادہ ہیں۔
عدم اعتماد کا اظہار تحریک سے زیادہ حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سیدھا راستہ آسان اور فائدہ مند ہے۔ راستےکے آخر میں ایک منزل کی تشہیر کا بھی شور بھی ہر الیکشن میں دہرایا جاتا ہے۔ تاہم
کوئی منزل کے قریب آ کے بھٹک جاتا ہے
کوئی منزل پہ پہنچتا ہے بھٹک جانے سے
خدا جانے یہ منزل ہمارے لیے ہر بار برائے فروخت کا بورڈ لگا کر ہمیں کیوں ڈراتی ہے۔ وطن عزیز کی صورت حال اعتماد و بے اعتمادی کے درمیان کھو گئی ہے۔
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا (بشیر بدر)
یوں لگتا ہے چھوٹے جانور بھی اپنا حجم بڑھانے پر آمادہ ہیں اور سپیرے نیولے اور سانپ کی لڑائی کروا کر روٹی کمانے میں مگن ہیں۔ بے اعتمادی کا شور گلی بازاروں تک پھیل چکا ہے۔ لیکن حکمران دعوی دار ہیں کہ کوئی انھیں تخت سے اتار کر دکھائے۔ یہ طے ہے کہ پانی ہمیشہ پنسال کی طرف ہی آتا ہے۔ اس سیلابی عہد اور مختلف اداروں کے باہمی تنازعات نے داخلیت پر وار کیا ہے۔ عورت کی بے اعتمادی کا نعرہ میرا جسم، میری مرضی میں ڈھلتا ہے تو اس پر لیبل لگا کر زہر ثابت کیا جاتا ہے۔
طلبہ کے تعلیمی نصاب کی بات کی جائے تو بورڈ نئی تعلیمی پالیسی وضع تو کرتا ہے لیکن کسی کو باخبر کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ انقلابی قوتیں یرغمالیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اشتمالی منظم کیسے ہوں پریس اور نشرو اشاعت کی مخالفت ہنوز نا قابل فہم ہے۔ مذہبی جادوگر استحصال پر اتر آئے ہیں۔ عوامی سیلاب کی عدم اعتمادی عہد نامے میں شامل نہیں رکھی گئی۔ زبان خلق پر paying apps کا پردہ چڑھا دیا گیا ہے اب عوامی رائے کا جادو بھی نہیں چل سکتا۔
عوام کو ہضم کرنے کی پالیسی مجروع اعتماد پر چرکے لگا رہی ہے۔ جلوت و خلوت کے شعلے مشترکہ دشمنوں کو پچھاڑنے سے زیادہ چھپانے پر زور دے رہے ہیں۔ داخلی و خارجی ادب مبہم ہے۔ ان بدلتے حالات میں صلح جوئی، متانت جیسی خوبیاں بزدلی میں بدلنے کے خواہش کار غیر تحریری ثبوت کے بل پر راج کر رہے ہیں۔