Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ruqia Akbar Chauhdry
  4. Laga Mardangi Pe Dagh

Laga Mardangi Pe Dagh

لاگا مردانگی پہ داغ

وہ پندرہ برس کا ایک معصوم نہایت ہونہار مگر غریب گھر کا بچہ تھا جسے کچھ لوگوں کی سفارش پر شہر کے سب سے بڑے سکول میں داخلہ مل گیا تھا۔ نمایاں تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بہت طاق تھا۔

ایک غریب گھر کے ہونہار طالب علم کی یہ قابلیت ہم عصر مگر معاشی طور پر مضبوط (بلکہ اگر یوں کہا جائے بگڑے رئیس زادے) طالب علموں کو کَھلنے لگی تو اس کا مورال ڈاؤن کرنے کیلئے اسے جسمانی طور پر ناکارہ ہونے کے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا۔

مردانگی کو ناپنے کیلئے اسے جس پیرامیٹر میں الجھایا گیا وہ اس کی سچائی سے بالکل لاعلم تھا، اپنے ساتھی طالب علموں کی طرف سے اتنے بڑے الزام کی حقیقت جاننے کیلئے بچے نے اپنے بائیو کے استاد سے معلومات لینی چاہیں مگر خونخوار، چبھتی ہوئی نظروں اور سخت سرزنش کے ساتھ بھگا دیا گیا۔

گوگل کا سہارا لیا مگر سوال وہاں بھی ایکوریٹ نہیں کر سکا گوگل تو آپ جانتے ہی ہیں ایک سوال کے بیسیوں جواب دے دیتا ہے اور ظاہر ہے جب سوال درست نہ ہوں تو جواب بھی درست نہیں ملتے۔

گوگل کے جوابات سے اسے یقین ہوگیا کہ ساتھی طالب علم ٹھیک کہتے ہیں وہ جسمانی طور پر انفٹ ہے۔

اپنے مسئلے کے حل کیلئے انٹر نیٹ کے ساتھ ساتھ چوکوں چوراہوں پہ کھڑے مردانہ کمزوری کا علاج کرنے والے ڈھونگیوں، نااہل ڈسپنسر نما عطائی ڈاکٹروں اور بنا نسخے کے دوائیاں بیچنے والے فارماسسٹ کے ہتھے چڑھ گیا۔

درست راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے غلطیوں پہ غلطیاں کرتا چلا گیا۔ حسد میں مبتلا رئیس زادے ساتھی طالب علم موقعے کی تلاش میں رہے سکول باتھ روم میں بچے کی وڈیو بنائی اور انٹرنیٹ پہ ڈال دی۔

گھر، سکول، ہمسائے غرض ہر جگہ سے بچے کے حصے میں نفرت، حقارت اور دھتکار آئی۔ ہر طرف سے تھو تھو ہونے لگی بچہ اس برے طریقے سے نفسیاتی دباؤ میں آیا کہ ایک بار ساتھی طالب علموں کو قتل کرنے اور دو بار خودکشی کرنے کی کوشش کی۔۔

حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے بچے کے ساتھ ساتھ خاندان بھر کیلئے مشکلات بڑھتی چلی گئیں اور ان کا شہر میں جینا حرام ہوگیا۔

کئی طرح کے ممکنہ حل سے ناکام ہو کر بالآخر باپ نے حالات کاسامنا کرنے کی ٹھانی۔ اپنے بیٹے کو نفسیاتی دباؤ سے نکالنے، سر اٹھا کر دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کیلئے اپنے اور ملک کے اس بہت بڑے سکول سمیت ہر اس شخص کے اوپر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا جس جس کی وجہ سے بچہ اس حالت کو پہنچا۔

یہ کہانی ہے OMG 2 کی۔۔

کہانی میں جس طرح جوان ہوتے "لڑکوں" کے مسائل کو اجاگر کیا گیا اور جس مہارت سے اس مسئلے کے ہر ہر پہلو کو ایڈریس کیا گیا وہ انتہائی قابل تعریف ہے۔

بچیوں کی بلوغت، معاشرے کا اس حوالے سے رویہ، مشکلات، مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر تو آجکل بات کر لی جاتی ہے۔ معاشرے میں یہ تبدیلی کافی حد تک آ چکی ہے جس کی وجہ سے مائیں اپنی بچیوں کو بہت کچھ طریقے سلیقے سے سمجھا دیتی ہیں اور گاہے بگاہے آگاہی دیتی بھی رہتی ہیں مگر بلوغت کے دور میں پہنچتے ہوئے "لڑکوں" کو کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس پر ہمارے ہاں کبھی بات نہیں کی جاتی۔ نا ہی والد اپنے بیٹے کو اس معاملے میں خاطر خواہ اور تسلی بخش معلومات دیتا ہے۔ لڑکے ایسے مسائل کیلئے اپنے سے بڑے لڑکوں یا پھر انٹرنیٹ سے راہنمائی لینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے اثرات بد کو اس مووی میں بہت اچھے سے اجاگر کیا گیا ہے۔

اس ضمن میں سیکس ایجوکیشن کی اہمیت پہ بات کرتے ہوئے اس کی راہ میں آنے والے تمام ممکنہ مسائل، رکاوٹیں اور نتائج کے ہر پہلو پر بھی کھل کر بات کی گئی۔ سماجی، معاشرتی اور مذہبی حوالے سے شاید ہی کوئی پہلو ہو جسے تشنہ چھوڑا گیا ہو۔

میں نہیں جانتی فلم میں اس مسئلے کا جو ممکنہ حل یعنی بتایا گیا وہ درست ہے یا غلط۔۔ یا اگر وہ درست نہیں تو اتنے بڑے مسئلے کا درست حل کیا ہے؟

نا ہی اس وقت میں"سیکس ایجوکیشن" کی حمایت یا مخالفت میں کوئی بات کرنا چاہتی ہوں اس مسئلے کو ہم اپنے مذہب، معاشرت، ثقافتی اقدار و روایات اور ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے ان شاءاللہ بہت جلد ڈسکس کریں گے فی الحال تو ہم اس بات کو ڈسکس کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے باپ کیا اپنے بیٹوں سے ان کے مسائل پہ بات کرتے ہیں؟

کیا انہیں اپنے جوان ہوتے بیٹوں سے ان کی بابت گفتگو نہیں کرنی چاہیئے؟ کیا یہ گفتگو ان کے اور بچوں کے درمیان لحاظ اور شرم کی دیوار گرا دے گی؟ اور کیا اس دیوار کے گر جانے سے زیادہ نقصان ہوگا یا پھر بچوں کو درست راہنمائی نہ ملنے پہ زیادہ نقصان ہوگا؟

ہمارا استاد کب اس بات کی ضرورت محسوس کرے گا کہ وہ اپنے طالب علموں کو ان کے جنسی مسائل کی مناسب انداز میں راہنمائی دے سکے؟ کیا استاد اور طالب علم کے درمیان ادب اور مرتبے کا رشتہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بچہ ان سے کھل کے اپنے مسائل ڈسکس کر سکے؟

ہمیں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے ہوں گے یہ وقت کی ضرورت ہے، بچوں کے شادی کے علاوہ بھی سینکڑوں مسائل ہوتے ہیں ان پہ بھی توجہ کیجئے۔

ہم مسائل کو کوڑا سمجھ کر قالین تلے دبا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں گھر صاف ستھرا ہوگیا ہے مگر قالین تلے دبا وہ کوڑا جب تک اپنے تعفن اور بدبو سے پورے ماحول کو بدبودار نہیں کر دیتا ہم اس پہ بات نہیں کرتے بلکہ بدبو اٹھنے پر بھی کوڑا نہیں صاف کرتے سینٹ کی پوری کی پوری بوتلیں خود پہ انڈیل کر سمجھتے ہیں بدبو ختم ہوگئی۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat