Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Yeh Zindagi (1)

Yeh Zindagi (1)

یہ زندگی (1)

اب میں تھک گئی تھی- مہمان جا چکے تھے اسلئے میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ عاصم صاحب بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں آ گئے۔ جب دیکھا کہ میں لیٹنے لگی ہوں تو تکئہ میرے پیچھے لگایا، کمبل میری ٹانگوں پر ڈالا، گو کہ میں عمر میں عاصم صاحب سے کوئی پانچ برس چھوٹی ہوں لیکن جسمانی طور پر وہ مجھ سے بہت بہتر ہیں۔ مجھے خصوصاً زیادہ سردی میں ٹھنڈ بہت جلدی لگنے کا مسئلہ ہے۔ جبکہ عاصم صاحب ماشااللہ فٹ ہیں۔ ابھی بھی ہروز صبح کو تیز واک کرنے اور شام کو چہل قدمی کیلئے جانا ان کا پکا معمول ہے۔

یہ 22 دسمبر کی شام ہے-سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گیس کے ہیٹر اور گیزر تو اب قصہ پارنیہ بن چکے ہیں۔ البتہ الیکٹرک فین ہیٹر آن کر کے انہوں نے میرے بیڈ کے قریب کر دیا۔ تھوڑی دیر میں میری بھابی چائے کے کپ ٹرے میں رکھ کر لے آئی۔ چھوٹی بھابھی کہنے کو تو بھابھی ہیں لہکن درحقیقت وہ مجھے اپنی بیٹیوں ناعمہ اورآئمہ سے کم عزیز نہیں ہے۔

مہمانوں کے جانے کے بعد گھر میں ایک دم خاموشی چھانے سے میرا دل اداس ہورہا ہے اس لئے میں نے اپنی بھابھی کو دو دن کیلئے اپنے پاس ہی روک لیا کیونکہ میرا چھوٹا بھائی عطا بھی گھر سے باہر تھاج ہماری شادی کی 28 ویں سالگرہ ہے۔ کرونا کی وجہ سے زندگی کی نئی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ جن میں سے ایک آن لائن میٹنگ بھی ہے۔ آجکل ہم دونوں میاں بیوی گھر پر اکیلے ہیں۔ بیٹیاں تو دونوں ہی پاکستان سے باہر ہیں لیکن بیٹا اپنے کسی سرکاری دورے پر گیا تو اپنی فیملی کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔

اس اثنا میں ہماری شادی کی سالگرہ آگئی۔ میری کینیڈا سے پاکستان آئی ہوئی نند کی خواہش تھی کہ ان کے دوبارہ باہر جانے سے پہلے ہی ہم یہ فنکشن کر لیں تا کہ اس گیدرنگ میں ان کی سب سے ملاقات ہو جائے۔ یوں تینوں بچوں نے آن لائن اس تقریب میں شرکت کی اور نند نے بہ نفس نفیس۔ عاصم صاحب نے کمرے میں آکر مجھ سے پوچھا"فارینہ۔ کیوں لیٹ گئی۔ بخار تو نہیں ہورہا۔ میں کب سے کہ رہاتھا کہ کیک کٹ گیا ہے تو اب کمرے میں چلی جاؤ، میں مہمانوں کے پاس ہوں، اللہ کرے تمہاری طبیعت خراب نہ ہو۔

وہ پھر سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر فکرمندی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ بھابھی سنبل ہنس پڑی۔ " بس کر دیں عاصم بھائی۔ لگتا ہے جیسے جن کی جان طوطے میں ہوتی ہے ویسے آپکی جان فارینہ آپی میں بند ہے" کیا کریں بھئی۔ مجبوری ہے اس کا خیال رکھنا۔ اس عمر میں تو ان کے سپئر پارٹس بھی نہیں ملنے، عاصم مجھے دیکھ کر شرارت سے ایک آنکھ دباتے ہوئے بولے"سپئر پارٹس کی کیا ضرورت ہے۔ آپ پوری کی پوری بیگم ہی نئی لے آئیے گا۔

میں نے بھی شرارتی مسکراہٹ سے کہا تو ان کا بے ساختہ جواب سن کر میں شش و پنج میں پڑ گئی کہ اب میں کیا کہوں " یار تمہارے جیسی کوئی نہیں بڑی بڑی خوبصورتیاں دیکھی ہیں، میں نے بات کو تبدیل کرتے ہوئے سنبل سے ہوچھا" عطا سے بات ہوئی؟ عطا میرا سب سے چھوٹا اور سب سے پیارا بھائی مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہےمیں جانتی تھی کہ اس کی کال نہیں آئی ہوگی کیونکہ اسے میں پہلے ہی بتا چکی تھی کہ آج سنبل میرے پاس رکے گی۔

اور آج وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کیلئے جس علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں فون کے سگنلز نہ ہونے کے برابر تھے" نہیں۔ آپی عطا کی کال نہیں آئی اور ویسے بھی وہ گھر سے باہر ہوں تو کون سا کال کرتے ہیں۔ سنبل کے لہجے میں اداسی تھی جو صرف میں محسوس کر سکتی تھیعاصم صاحب نے کہا" میرا خیال ہے کہ میں آج بچوں والے کمرے میں سو جاتا ہوں اور اپ دونوں ادھر سو جائیں اور ویسے بھی میری کمپنی سے زیادہ آپ اپنی پیاری بھابھی جان کے ساتھ خوش رہیں گی۔

انہوں نے پھر ایک شرارتی نظر مجھ پر ڈالی اور اپنا تکیہ اٹھا کر دروازہ بند کر کے چلے گئے۔ سنبل نے بڑی حسرت سے کہا"آپی۔ آپ لوگوں کی زندگی کتنی حسین ہے۔ عاصم بھائی کتنے خوش مزاج ہیں۔ آپی ماشاء اللہ آپ بہت خوش نصیب ہیں، میں جانتی تھی کہ سنبل کی شادی کے ان دو سالوں میں اسے عطاء سے کئی شکوے تھے جن میں سے سر فہرست اس کا بیوی کے ساتھ خشک رویہ اور دوسرا اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شامل ہے۔

جب سے سنبل کی شادی ہوئی اور مجھے اندازہ ہوا کہ اسے عطاء کے ساتھ کیا شکوئے ہیں میں نے بارہا کوشش کی کہ اس کے ساتھ اس موضوع پر بات کر کے اسے کچھ سمجھا سکوں لیکن کوئی مناسب موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ آج ایسا موقعہ تھا کہ میں اسے ازدواجی زندگی کے کچھ نشیب و فراز یا کچھ حقائق بتا سکتی تھی۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بات کہاں سے شروع کروں، کیا اپنی زندگی ے پردہ اٹھا کر اپنے آپ کو بے وقعت کردوں؟ یا اسے وقت کے تھپیڑوں کے سپرد کردوں۔ وقت جو سبق پڑھاتا ہے وہ کوئی کتاب نہیں پڑھا سکتی۔

آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ اسے وقت کے تھپیڑوں کی سپرد نہیں کرنا۔ اسے اپنی اس خوبصورت زندگی کی کچھ تلخ سچائیوں سے آگاہ کرنا ضروری ہےپورا پیکیج تو کبھی کسی کو نہیں ملتا۔ کچھ نہ کچھ سمجھوتے تو زندگی میں کرنے ہی ہڑتے ہیں سنبل کو میں نے اپنے ساتھ ہی بیڈ پر لٹا لیا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس سے پوچھاکہ پڑھوں خط یا مضمون زبانی سناؤںہزاروں ہی شکوئے ہیں، کیا کیا بتاؤں۔

" کیا مطلب آپی؟ ، اس نے اپنی لائٹ گرین آنکھیں حیرت سےپوری کھول کر مجھے دیکھا" دیکھو سنبل۔ تم جانتی ہو کہ تم مجھے اپنے بچوں جیسی عزیز ہو اور تم میری عزیز از جان دوست کی بیٹی ہو۔ میں تمہارے ساتھ کبھی کوئی ایسی بات نہیں کروں گی جو تمہیں بعد میں نقصان پہنچائے، " آپی، کیسی باتیں کررہی ہیں، آپ جانتی ہیں کہ امی کے جانے کے بعد آپ کو میں امی جیسی ہی جگہ پر رکھتی ہوں، سنبل کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

" تو بیٹا اگر تم چاہو تو میری شادی کے شروع والے چند سالوں کی کچھ ڈائریاں لے لو اور اگر چاہو تو میں تمہیں زندگی کے کچھ حقائق خود سے بتادوں؟ میں نے فیصلہ اس پر چھوڑتے ہوئے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈالا اور اپنی رات کی دوائیں کھانے کیلئے نکالنے لگی" آپی۔ آپ کی تو اتنی مکمل زندگی ہے کہ ہر لڑکی ایسی زندگی کی تمنا کرتی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ ایسی کامیاب زندگی کا قیمتی راز آپ ضرور مجھے بتائیں۔

اب پھر میں سوچ کی کشتی میں سوار ماضی کی لہروں میں چپو چلا رہی ہوں کہ کہاں سے شروع کروں کہ میرا بھرم بھی رہ جائے اور سنبل کو بھی میں، میری زندگی کے مجھے پڑھائے گئے اسباق میں سے کچھ باب بتا سکوں۔ یہ ملتان کی ایک گرم سہ پہر تھی، ہم لوگ اپنے ماموں کرنل صبغت اللہ کے گھر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے۔۔

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin