Siasat, Ikhlaqiat Aur Hum
سیاست، اخلاقیات اور ہم
ملکِ پاکستان میں جس قدر وسائل کی فراوانی ہے اسی طرح مسائل کی فہرست بھی طویل ہے وہ چاہے معاشی ہوں، یا پھر لسانی، مسلکی اور سیاسی۔ لیکن ان تمام کے باوجود ایک بنیادی اور مشترک مسئلہ "اخلاقیات" کا ہے۔ کچھ عرصے سے اہلِ سیاست نے اس معاملے میں جو ماحول پیدا کیا اس کے اثرات تادیر محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ اصطلاح میں"سیاست ایسے فعل کو کہتے ہیں جس سے لوگ اصلاح اور بہتری کے قریب اور فساد اور برائی سے دور ہو جائیں"۔
اہلِ مغرب طرزِ حکومت کو سیاست سے تعبیر کرتے ہیں اور ان امورِ مملکت کا نظم و نسق چلانے والوں کو سیاست دان کہا جاتا ہے۔ یعنی سیاست دان کا اولین فرض اور ذمہ داری خیر خواہی، رواداری اور رعایا کو جوڑ کر رکھنا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور امنِ عامہ کے لئے اپنی خدمات سر انجام دینا اور ملکی و ریاستی وسائل کو تعلیم و تربیت، صحت اور حفاظت کے لئے بروئے کار لانا ہے۔ لیکن ایک عرصے سے یہاں اسی بنیادی قدر اور ضرورت سے ہمارے اہلِ سیاست محروم نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی تمام تر کاوشوں اور توانائیوں سے فریقِ مخالف کو رسوا کرنے کے لئے تمام سچی، جھوٹی تعبیروں اور تقریروں سے نہ صرف خود کو محظوظ کرتے ہیں بلکہ سامعین کے ذوق اور تربیت کو بھی غیر محسوس انداز میں متاثر فرما رہے ہوتے ہیں۔
سیاست میں تناؤ ہر معاشرے میں ہوتا ہے لیکن یہ تناؤ اور اختلاف، ذاتی عناد پر اتر آئے، بڑے چھوٹے کی تمیز ختم کر دے، اخلاقی اقدار کی حرمت کا پاس نہ رہے ایسا قومی اور سماجی اخلاقیات کو غلاظت کے کنویں میں اتارنے کے مترادف ہے۔ کچھ چیزیں انسان کی فطرت میں الہامی طور پر ودیعت کردی گئی ہیں ان کے لئے ابتدائی طور پر بھی کسی تربیت اور اصلاح کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ انسان کا فطری اور مادی شعور ہی اس کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ اسے جھوٹ نہیں بولنا، کسی کے متعلق نقصان نہیں سوجھنا، برے القابات، چوری، بدگمانی اور الزام تراشی سے اجتناب کرنا ہے اور اس کے علاوہ دیگر محاسن بھی۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ آبادی کے اعتبار سے اکثریت مسلم قوم بستی ہے ایسے میں اخلاقی ہدایات اور احکامات نہ صرف قومی، ملی اور سماجی فریضہ بن جاتے ہیں بلکہ دینی اعتبار سے بھی ان تمام اخلاقی اقدار کا لحاظ اس کے فرائض میں شامل کر دیا گیا ہے۔
اسلامی لٹریچر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو دین بالعموم تمام چیزوں کے متعلق اصول فراہم کرتا ہے اور ان پر قیاس کرتے ہوئے تمام معاملات میں ماہرین دینی ہدایات کا اہتمام کرتے ہیں (جسے عرفِ خاص میں اجتہاد کہا جاتا ہے) لیکن اخلاقیات کے باب کو ایسی غیر معمولی حیثیت حاصل ہے کہ اس کے متعلق فقط اصولوں اور اشاروں پر ہی انحصار نہیں کیا گیا بلکہ جزئیات تک فہرست بتائی گئی کہ انسان کو اخروی نجات کے لئے کن کن چیزوں کے متعلق پابند کیا گیا ہے۔
چنانچہ اسی تفصیل میں بغیر تحقیق کے ناشائستہ گفتگو سے بچنے کے لئے خبر لانے والے کی خوب تحقیق اور چھان بین کا حکم دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ محض خبر پہنچنے کی صورت میں الزام تراشی، پراپیگنڈا اور بدگمانی کی روش کسی طور پر عام مسلمان کے متعلق بھی روا نہیں چہ جائیکہ قومی لیڈر شپ اس کبیرہ اور اخلاقی کوتاہی کا ارتکاب کرے۔ اسی دین میں مومن کو مومن کا بھائی کہا گیا ہے، اس کے متعلق غلط فکر، غیبت، بہتان اور چغلی سے بچنے کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ ایک انسان کے لئے دوسرے انسان کی عزت، آبرو، مال اور جان کو کعبہ اور مکہ کی تعظیم اور حرمت کی طرح قرار دیا گیا ہے، مکارم اخلاق کی تکمیل کو بعثت مصطفیٰ ﷺ کا بنیادی مقصد کہا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ان اخلاقی جرائم کا چلن جس بے احتیاطی سے بالخصوص سیاست دانوں میں کچھ عرصے سے عام ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
اس لیے کہ سیاست دان اور رہنما جب بات کرتے ہیں تو لوگ اسے سنتے ہیں، اس تقریر اور ٹویٹ سے عوام کے رویے تشکیل پاتے ہیں، انہی خطابات اور ٹاک شوز سے وہ اپنے ذوق اور معلومات کے متعلق اپنا سیاسی عقیدہ متعین کرتے ہیں۔ کارکنان کے سامنے جب آپ تضحیک آمیز گفتگو، الزام تراشی، بہتان اور غیر معیاری الفاظ کا استعمال کریں گے تو لامحالہ اس کے نتائج میں جو ماحول بنے گا، گالم گلوج کا کلچر فروغ پائے گا اس کا اثر آپ کے سیاسی، سماجی اور اخروی اعمال نامے پر بھی پڑے گا۔
اس لیے کہ رسالت مآب ﷺ جب بھی حکمرانوں کو دعوت کے خطوط لکھتے تو ساتھ یہ تنبیہ بھی فرماتے کہ ان تمام معاملات میں رعایا کی ذمہ داری بھی رہنمائوں اور حکمرانوں کے سر پر ہوتی ہے۔ ووٹ کے حصول کے لئے کسی کو برا کہنے کی کیا ضرورت ہے، شائستہ تنقید ضرور کریں لیکن وہ بھی حقائق پر مبنی اور اقدامات پر، نہ کہ شخصیات کے متعلق۔ اس لیے کہ سیاست ہیجان اور افراتفری کرکے اپنے فین کلب اور فالوورز بڑھانے کا نام نہیں بلکہ قومی، معاشی، معاشرتی اور قانونی طور پر Educateکرنے اور باہمی خیرخواہی اور رواداری کے ساتھ سب کو احترام اور محبت کے رشتے میں جوڑنے کا نام ہے۔
کارکنان سے عرض ہے کہ سیاست میں شخصیات سے رومانوی محبت کے بجائے ملکی ترقی و سلامتی کے لئے اخلاقی اصول اپنائیں نہ کہ اپنے سیاسی لیڈران کی ہر بات پر آنکھیں اور دماغ بند کرکے "لبیک" کہا جائے پھر چاہے وہ بات اخلاقی اعتبار سے کتنی ہی غلاظت سے بھری ہوئی ہو، "انصاف" سے دور دور تک تعلق نہ ہو اور اس کے نتیجے میں کتنی ہی نفرتیں، عناد، تقسیم در تقسیم اور سیاسی فرقہ واریت ماحول میں سرایت کرتی جائے۔
غالباً ایسے ہی ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے مرحوم علامہ اقبال نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ:
وطن کی فکر کر، مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں