Mubarak Sani Case, Mazhabi Ravaiye Aur Hum
مبارک ثانی کیس، مذہبی رویے اور ہم
آسیہ مسیح کیس کی طرح یہ معاملہ بھی ایک نچلی سطح سے شروع ہوا اور پھر اس نے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی دھاک بٹھائی۔ ہوا کچھ یوں کہ چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔ ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مرزائیوں کے تعلیمی ادارے "مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی" کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر "تفسیرِ صغیر" 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ "تفسیرِ صغیر" احمدی کمیونٹی کی جانب سے مرتب کردہ تحریف شدہ قرآنی تفسیر ہے جس کی تقسیم کے خلاف دسمبر 2022 میں درج ہونے والے مقدمے کے بعد پولیس نے مرزائی مبارک ثانی نامی شخص کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک ثانی کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ معاملہ چونکہ حساس مذہبی نوعیت کا تھا اس لیے مذہبی اکابر اور جماعتیں اس فیصلے کے انتظار میں تھیں، البتہ سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والے پہلے فیصلے کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نفرت آمیز مہم بھی چلائی گئی۔
تفصیل سے پہلا فیصلہ پڑھیں تو یہ چیزیں واضح ہوتی ہیں کہ ملزم کے خلاف دفعہ 295 سی، 298 اور پنجاب کے اشاعت قرآن ایکٹ کی دفعہ سات اور نو کے تحت چھ دسمبر 2022 کو مقدمہ درج ہوتا ہے جس میں ملزم پر الزام ہے کہ وہ ممنوعہ کتاب "تفسیرِ صغیر" کی تقسیم میں ملوث ہے۔ پہلے عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم پر بنیادی طور پر تین الزامات تھے جن میں پہلا الزام یہ تھا کہ پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 کی دفعہ سات اور نو کے تحت "تفسیرِ صغیر" کی تقسیم کی گئی۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ دفعہ 295 بی کے تحت توہینِ قرآن کی گئی جب کہ تیسرا الزام دفعہ 298 سی کے تحت احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا ہے۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ان الزامات کے تحت چھ دسمبر 2022 کو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد 10 جون اور 27 نومبر 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ سے ملزم کی ضمانت خارج کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس کیس کی ابتدا سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے سامنے اس کیس میں دو سوالات تھے جن میں پہلا تو ملزم کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست تھی۔ دوسرا معاملہ فرد جرم سے مختلف جرائم کو حذف کرنے کی درخواست تھی۔ عدالت کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ ملزم کے خلاف چھ دسمبر 2022 کو جو ایف آئی آر درج کی گئی، اس کے مطابق ملزم پر الزام ہے کہ اس نے 2019 میں"تفسیرِ صغیر" تقسیم کی ہے جو کہ پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے۔
لیکن ایسی کوئی تفسیر تقسیم کرنے پر پابندی 2021 میں لگی ہے یعنی اگر 2021 کے بعد اگر کوئی ایسی تفسیر تقسیم کرے گا تو وہ جرم کے زمرے میں آئے گا۔ مزید قانونی پہلو یہ بھی ہے کہ فیصلے کے مطابق فوج داری مقدمات میں مقدمہ بروقت دائر کرنا اہمیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ لیکن اس کیس میں 2019 کے الزام کی بابت ایف آئی آر 2022 کے آخر میں درج کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 12 واضح ہے کہ کسی کو بھی کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی جسے کرتے وقت وہ کام کسی قانون کے تحت جرم کی تعریف میں نہ ہو اور قرآن بھی اس متعلق واضح ہے " الا ما قد سلف" اور اگر سزا دی بھی جائے تو وہ چھ ماہ بنتی ہے جبکہ ملزم یا مجرم 13 ماہ کی سزا کاٹ چکا ہے۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ چوں کہ "تفسیرِ صغیر" 2019 میں تقسیم کرنا جرم نہیں تھا، اس لیے پنجاب اشاعت قرآن قانون کے تحت ملزم کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی اور عدالت عظمیٰ نے ملزم کے خلاف دیگر دو الزامات یعنی توہینِ قرآن اور خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کے حوالے سے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر اور نہ ہی پولیس کے چالان میں ان الزامات کے حوالے سے کوئی بات ہے۔ اس وجہ سے موجود ایف آئی آر کے مطابق عدالت نے دونوں دفعات فردِ جرم سے حذف کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پنجاب حکومت کی جانب سے اس معاملے پر دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مبارک ثانی نامی شہری کی ضمانت سے متعلق عدالتی فیصلے کے پیرا نمبر 9 میں آرٹیکل 20 کی مکمل وضاحت نہیں کی گئی۔
مذہبی و دینی ایک مقدس عقیدہ ہونے اور ملک گیر ایک کشمکش کی سی صورتحال میں چیف جسٹس نے ملک کے 10 بڑے دینی اداروں سے رہنمائی کے لئے خطوط بھی لکھے اور سماعت کے دوران ان بڑے دینی اداروں کے نمائندوں سے انکی رائے بھی لی جبکہ آئینی طور پر دیکھا جائے تو نظرِ ثانی میں صرف مدعی اور ملزم سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے تاہم تمام دینی اداروں نے اپنے اپنے دلائل سامنے رکھے اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
24 جولائی کو نظرِ ثانی کے بعد جب فیصلہ آیا تو مزید وضاحت دیتے ہوئے عدالت نے نہ صرف قادیانیوں کو انکی آئینی حیثیت کے مطابق کافر قرار دیا، شعائر اسلام کو استعمال کرنے سے منع کیا، بھٹو دور میں تحریک ختمِ نبوت کے حوالے دیتے ہوئے انکی پوزیشن واضح کی اور مزید ابہام کو دور کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے حوالوں اور تاریخ میں اس نوعیت کے دیگر فیصلوں کا ذکر بھی کیا۔ سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی نظرِ ثانی درخواست منظور کرتے ہوئے لکھا کہ پیغمبرِ اسلام پر مکمل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جبکہ اگر عدالت عظمی پر جانبداری کا الزام لگایا جائے تو چیف جسٹس نے جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق "ہم کسی کو غیر مسلم نہیں کہہ سکتے" کا نہ صرف رَد کیا بلکہ کہا ہم آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں اور آئین کی رُو سے یہ افراد غیر مسلم ہیں۔
مزید یہ بھی واضح کیا کہ مذہبی آزادی کا بنیادی حق آئین، قانون اور امنِ عامہ سے مشروط ہے اور تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے تاہم نظرِ ثانی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ نہ صرف فیصلہ اردو میں دیا گیا بلکہ ایک پریس ریلیز میں مزید وضاحت کی کہ سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر قانون سے اختلاف ہے تو ان اداروں کی طرف جائیں جو قانون بنانے والے ہیں ہم تو موجود قانون کے پابند ہیں۔
اس فیصلے کے آنے کی دیر تھی کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک اندوہناک پراپیگنڈے اور مہم کا آغاز کیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہتک آمیز باتیں کی گئیں، غیر اخلاقی میمز کا آغاز ہوا، دھمکیاں دی گئیں، اور تو اور کروڑوں میں انکے سَر کی قیمتیں لگنے لگیں۔ یہ رویے اور ذہنیت معاشرے کو کس جانب لے جانا چاہ رہی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ فیصلے سے اختلاف اپنی جگہ لیکن یوں کسی کی جان کے دَر پے ہوجانا خاتم النبیین پیغمبر کی کس تعلیمات کے مطابق ہے۔
آپ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے سن 73ء کی طرح ایک پُر امن تحریک شروع کریں اور اس میں یہ مطالبات پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ یہ اقلیت دیگر اقلیتوں کی طرح مذہبی آزادی کی مستحق اس لیے نہیں ہے کہ اسکا تعلق وہ اس ریاست کے مذہب اسلام سے جوڑتے ہیں، وہ آئین کے باغی ہیں تو آئین تشکیل دیں کے ایسے لوگوں سے کیسے نمٹنا چاہیے، اس مخمصے کو واضح کریں کہ چار دیواری میں اگر اسلحہ بنانا، قتل کرنا، آئین کو پامال کرنا اور دیگر جرائم، جرم ہیں تو انکی یہ حرکتیں بھی جرم ہیں کیونکہ بنیادی طور پر آئین تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی دیتا ہے لیکن انکا معاملہ دوسری اقلیتوں سے مختلف ہے، پھر اگر عدالت اس خاص طبقے کی حمایت میں کوئی اقدام کرتی ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر کریں، سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف رجوع کریں، لیکن یوں سرِ عام انارکی و انتشار کی بات کرنا نہ صرف جمہوری اصولوں کے خلاف ہے بلکہ علمی و اخلاقی ماحول میں سیاسی تربیت پہ بھی سوالیہ نشان اور ایسے میں استدلال یہ پیش کریں کہ ہم عشقِ رسول کے جذبے سے سر شار ہوکر ایسا کررہے ہیں تو محبت کا پہلا درجہ اطاعت ہے اور اللہ جل شانہ ہمیں اتباع و اطاعت کے احکامات دیتا ہے اور رسالت مآب ﷺ کی ساری زندگی نظم و نسق اور آئین کی بالا دستی، قانون کے احترام، انسانی جان کی حرمت اور رواداری سے عبارت ہے۔
مزید ستم بالائے ستم یہ بھی کہ پیغام پاکستان جیسے اعلامیے پہ متفق چوٹی کے اکابر ان معاملات پہ کیوں خاموش ہوجاتے ہیں اور کسی بڑے حادثے کے بعد فقط "مذمت" کے الفاظ ادا کرنے کی ہمت کرتے ہیں تو ریاستی اداروں کو ان کرداروں کی بابت بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم کس قدر تیز بہاؤ والے فکری انتشاری سیلاب کو مخمل کے باریک کپڑے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔