Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Asif Jami
  4. Falsafa e Mohabbat Aur Hum

Falsafa e Mohabbat Aur Hum

فلسفۂ محبت اور ہم

محبت اس کائنات کے خوبصورت "احساس اور جذبے" کا نام ہے۔ یہ جذبہ اور احساس جس کے دل میں انگڑائی لے اسے "محب" اور جس کے لیے بیدار ہو اسے "محبوب" کہا جاتا ہے۔ ہر صاحبِ ذوق نے اپنے اپنے نرالے انداز میں اس "لامحدود ریاست" میں طبع آزمائی فرمائی ہے اور رومانوی شاعروں نے تو کمال مبالغے کے ساتھ اسکو بامِ عروج تک پہنچا کے ابھی تک چین نہ پایا۔

یاد رہے محبت اور عشق میں فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے اس لیے کہ محبت آداب اور حدود کی پابند ہوتی ہے جبکہ عشق کی دو صورتیں ہیں۔

اول تو جب عاشق کو اپنا معشوق نہ ملے تو نفسیاتی طور پر گڑبڑ کا آغاز ہوجاتا ہے اور پھر یہ کیفیت بہت خطرناک حد تک جا پہنچتی ہے، پھر اس عشق نامی بیماری کا تریاق کسی بڑے ماہر اور "مہنگے ماہر نفسیات" سے ہی بمشکل ممکن ہوتا ہے۔ دوسرا جب عشق شریعت کی مہر لگوا کر "نکاح" کے بندھن میں بندھ جاتا ہے تو نتیجتاً "کثرتِ اولاد" کے جلوے بکھیر دیتا ہے۔ اس عشقیہ مرض کے متعلق ہی شاعر نے بالکل درست کہا ہے کہ

کہتے ہیں جسکو عشق، خلل ہے دماغ کا

جبکہ محبت آزادی ہے، محبت ہمدردی ہے، محبت خلوص ہے، محبت سچ ہے اور محبت انسان جیسے"حیوانِ ضاحک" کے لیے بیماری نہیں، علاج ہے۔ محبت خودی بھی ہے، کیونکہ محب اور محبوب میں"تیرا میرا" نہیں بلکہ محبوب بھی "خود" ہی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک ماں کے لیے بچہ اسکے اپنے وجود سے ہی نکل کر سامنے تو ہوتا ہے اور نظر آنے میں وہ ایک "دوسرا وجود" ہوتا ہے لیکن اس ماں کے لیے وہ "خودی" یعنی اپنا ہی منظر ہے۔ اسی لیے ماں کا بچے سے محبت کا اظہار اور دعویٰ کبھی الفاظ کا محتاج نہیں ہوتا اور ماں کو بچے سے محبت "کرنا" نہیں پڑتی بلکہ اسے محبت "ہوتی" ہے۔ کہ محبت کرنے اور ہونے میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو محبت کرتا ہے وہ گِرتا ہے اور گرنے سے چوٹیں لگتی ہیں، زخم ملتے ہیں۔ جبکہ محبت زخموں کا نہیں"مرہم" کا دوسرا نام ہے۔

ایک بڑی غلط فہمی جو محبت کے متعلق بالعموم پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ محبت سے "نیچے" بھی بہت سے احساسات اور جذبے ہیں اور اوپر بھی۔۔ ہماری زندگی میں بہت سے تعلقات ہوتے ہیں، احساسات جنم لیتے ہیں، جن سے شناسائی اور واقفیت نہ ہونے کی بنا پر اپنی ناقص معلومات کے بَل بوتے ہم اِن جذبوں اور کیفیات کو بھی خود ساختہ "محبت" کا نام دے دیتے ہیں۔

یہاں ہم ان کی تحلیل کرکے یہ جانیں گے کہ کیا یہ جذبات اور احساسات بھی الگ سے کوئی شناخت اور نام رکھتے ہیں یا پھر اس "جہانِ یکسوئی" میں صرف ایک ہی احساس اور کیفیت ہے اور وہ محبت ہے۔

"پسند کرنے" کا جذبہ بھی ایک وجود رکھتا ہے، جب ہم کسی چیز کو پسند کرتے ہیں، ہمارے دل کو کچھ لُبھاتا ہے، جی للچاتا ہے، تو فورا ہم اسے محبت کی نگری میں پہنچا دینا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ میں چونکہ اِسے پسند کرتا ہوں لہذا میں اس سے محبت کرتا ہوں اور انسانی نفسیات کی ستم ظریفی اور خود غرضی بھی دیکھیے کہ میری پسندیدہ چیز اب میری "ملکیت" بھی ہونی چاہیے۔

ایسے صاحب کو دو "دست" رسید کرکے یہ بتانا چاہیے کہ جناب یہ خودداری ہے "خودی" نہیں۔ اور کیا جب اپ کسی چیز کو پسند کرتے ہیں، اس کا مطلب آپ کو وہ چیز پھر عمر بھر چاہیے بھی۔۔! مثلاً آپ کو کھانے میں پالک گوشت پسند ہے تو کیا صبح، دوپہر، شام، ہردن، ہفتہ بھر، مہینے بھر آپ کو یہ پسندیدہ پکوان ہی چاہیے؟ نہیں۔۔! وہاں آپ کو تبدیلی اور بدلاؤ درکار ہے۔ اور محبت تبدیلی نہیں بلکہ مستقل مزاجی کا نام ہے۔ لہذا کسی کو محض پسند کرنا محبت نہ ہوا بلکہ ایک اور جذبہ قرار پایا جس کا کم از کم محبت سے دُور دُور تک تو کوئی تعلق نہیں۔

یوں ہی ہم اپنے Emotions، Feelings، Time Spent، Attentions، Attractions اور Relations کو بھی اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بناء پر "تختِ محبت" پر براجمان کرنے کی غلطی کرکے نقصان اٹھاتے ہیں۔ یہ سارے وہ جذبات اور کیفیات ہیں جو میل ملاپ اور گفتگو کے نتیجے میں فطری طور پر انسان کے ہارمونز میں پرورش پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی جانور کی دیکھ بھال کرتا ہے، اس کے ساتھ وقت گزارتا ہے، اسے وہ جانور اچھا بھی لگتا ہے، ممکن ہے جانور سے محبت و اُنس کا تعلق بھی قائم ہو چکا ہو۔ لیکن کیا وہ انسان اپنے اس محبوب جانور سے شادی کر لے تب ہی "کامل اور کامیاب" محبت قرار پائے گی؟ نہیں۔۔

ان کیفیات کو محبت کا نام دے کر بوکھلا جانا اور محبوب کو پانے کے لیے ہر حد گزر جانا، پاگل پن اور حدود کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ محبت تو حدود اور آداب کی پابند ہوا کرتی ہے۔ ایسے رویے توہینِ محبت کہلاتے ہیں، تحسینِ محبت بالکل نہیں۔

انسانی جبلت اور خواہشات کی تکمیل کی حرص، یہ بھی ایک نفسانی اور نفسیاتی پہلو ہے، محبت ہرگز نہیں۔ وگرنہ کسی کا خوبصورت لگنا، کسی کے ساتھ وقت گزارنا، کسی سے عقائد و نظریات میں مماثلت رکھنا، کسی کو پسند کرنا اور اس سے بڑھ کر کسی پر منحصر ہو جانا، یہ بالکل الگ چیزیں ہیں جبکہ محبت لافانی اور بے مثل احساس کے تحت بالکل خاموش ہونے اور محبوب کو آزاد کرنے کا نام ہے۔ کیونکہ محبوب بھی درحقیقت محب ہی کا "عکس اور خود" ہے۔ اور انسان جس طرح خود آزاد اور بغیر حدودو و قیود کے زندگی گزارنے کا طالب ہے ویسے ہی محبوب بھی اس چیز کا اتنا ہی حق رکھتا ہے۔

پھر ایک اور جسارت جو نام لیوانِ محبت کرتے ہیں وہ یک طرفہ محبت، دو طرفہ، سہ طرفہ وغیرہ۔۔ کیا ہے یہ سب؟

جناب عالی! محبت کرنا اپنی ذات میں ایک "مکمل عمل" ہے۔ محبت ملے یا نہ ملے اسے کبھی بھی ناکامی اور احساسِ محرومی کی عینک سے جانچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور میں تو اکثر کہا کرتا ہوں کہ محبت کرنا اچھا ہے لیکن نہ کرنا یا پھر کم از کم اسکا اظہار نہ کرنا اور بھی زیادہ اچھا ہے۔

کیونکہ جس دروازے کو کھولنے سے دُکھ ہو یا دُکھ ملنے کا اندیشہ بھی ہو اسے بند رکھنا ہی بہتر ہے۔

محبت کے بارے میں میرا ایک اور اٹل نظریہ اپنی جگہ قائم ہے کہ محبت ہمیشہ لاحاصل اور ادھوری ہی رہنی چاہیے کہ یہ زخم رِستا رہے اور محرومی کی نعمت کی لذت بھی کبھی کم نہ پڑے۔ بعض احباب محبوب کے نہ ملنے پہ بڑے دل گرفتہ اور شکستہ ہو کر "بدلے" کی تھان لیتے ہیں تو انہیں کسی بھی عمل کے ردِعمل سے پہلے کسی ماہر نفسیات کے ہاں ضرور چکر لگا لینا چاہیے تاکہ دماغ اپنی اصل اور حقیقی جگہ یعنی "سر" میں سکونت پذیر ہو سکے۔

اور پھر ایسے "صاحبِ سر" کو سمجھائیں کہ محبت کا متضاد، بدلہ یا نفرت نہیں بلکہ "معافی اور آزادی" ہوتا ہے تاکہ اس کیفیت کے اسرار و رموز سے روح ہمیشہ حَظ اٹھاتی رہے۔

نپولین ہِل نے اپنی معروف انگریزی کتاب "Think and Grow Rich" میں کہیں لکھا ہے کہ "دنیا میں بے شمار لوگ محبت میں ناکامی کے بعد بڑے انسان بنے ہیں"۔

(ہم ٹی وی کا معروف سیریل "پری زاد" اسکی حالیہ و زندہ مثال ہے۔)

جس طرح ہم محبت کے نچلے احساسات کو ہوا دے کر محبت کی کہکشاں میں اُڑانے لگتے ہیں اسی طرح محبت سے "اوپر والے جذبوں" کو ان کا اصل مقام نہ دے کر ہم بڑی کوتاہی کر رہے ہوتے ہیں۔

جیسا کہ وفاداری، عزت داری، رازداری، خدمت گزاری، نگہبانی، ہمدردی اور اخلاص کا پایا جانا۔

یہاں حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ حکومت سے ایک واقعہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحب آپ کے دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ "میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں" آپ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ "مجھے اپنی بیوی سے محبت نہیں" تو آپ نے کمال شان سے یہ جملے ارشاد فرمائے کہ (کیا ایک گھر کی بنیاد صرف محبت پر ہی رکھی جا سکتی ہے؟ پھر وفاداری، عزت، بڑوں کے احترام اور کہا ماننے کی کیا حیثیت؟) پس اس سائل نے علیحدگی کا ارادہ ترک کردیا۔

معزز قارئین! ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے، خود کوسمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی بھی ناکامی "مکمل ناکامی" نہیں ہوتی۔ محبت سے نیچے کے جھنجلوں کو محبت قرار دینے سے بچنا اور اوپر والے احساسات کو زیادہ اہمیت و فوقیت دینا ہی اصل دانشمندی ہے۔

اگر کسی سے حقیقی محبت ہے بھی تو آپ کی طرف سے "محبت ہونا یا محبت کرنا" یہ بھی تو ایک "کامل عمل" ہے اور یہ بات جس قدر جلد سمجھ آجائے اتنا ہی بہتر اور اپنی خیر خواہی ہے اور ایک سمجھدار انسان کے لیے سب سے بڑا خیر خواہ وہ خود ہی تو ہوتا ہے۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed