Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Orya Maqbool Jan/
  4. Ujarti Qatilon Ka Koore Dan

Ujarti Qatilon Ka Koore Dan

اُجرتی قاتلوں کا کوڑے دان

یہ بھی گیارہ ستمبر کی ہی ایک صبح تھی۔ ایک اور طرح کی جنگ کا آغاز ہو رہا تھا۔ پوری امریکی انتظامیہ دنیا بھر میں پھیلتے اور اثرپذیر ہوتے ہوئے "کیمونسٹ دہشت گردوں" کو ان کے ملکوں میں ہی تہہ تیغ کرنا چاہتی تھی تاکہ یہ دہشت گردی امریکہ کے ساحلوں تک نہ پہنچ جائے۔ دن تو گیارہ ستمبر ہی کا تھا، لیکن سال تھا 1973ء۔

امریکی حکومت کی آنکھوں کا تارا، ایک جرنیل جو 1915ء میں سینٹیاگو میں پیدا ہوا۔ اس نے 1936ء میں ملٹری اکیڈمی میں کمیشن حاصل کیا، پھر وہ آہستہ آہستہ ترقی کے زینے طے کرتا بریگیڈ جنرل کے عہدے پر جا پہنچا اور 1972ء میں اسے آرمی چیف بنا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے آرمی چیف امریکہ نے بنوایا تھا۔ ٹھیک ایک سال بعد اس عنایت کے بدلے میں امریکہ نے اس سے اپنے ہی ملک کے منتخب صدر کی حکومت اُلٹنے کا کام لیا۔ اسی صدر نے اسے آرمی چیف بنانے کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔

سلویڈور آلندے کی صدارت چلّی کے عوام کے ووٹوں سے وجود میں آئی تھی، لیکن امریکہ کے نزدیک چلّی کے عوام کے ووٹ تو کیمونسٹ دہشت گردی کے حق میں تھے۔ امریکہ کے نزدیک اس جمہوری حکومت سے دنیا کے امن کو خطرہ لاحق تھا۔ دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے لیے گیارہ ستمبر کی صبح چلّی کے جنرل آگسٹے پنوشے نے اپنی مسلح افواج کے ساتھ صدارتی محل پر قبضہ کر لیا اور فوراً بعد ہی اس نے ملک کے صدر ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد امریکی انتظامیہ اور اس کے خفیہ ادارے پنوشے کی حکومت کے مخالفین کو کچلنے کے لیے اسے ہر طرح کی امداد مہیا کرنے لگے۔ لوگوں کو اذیت دینے والے آلات سے لے کر جاسوسی کے نیٹ ورک تک سب کچھ مہیا کیا گیا۔

ملک بھر سے لاکھوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ہزاروں کو یا تو اذیت دے کر ہلاک کر دیا گیا یا پھر ان کا کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا۔ بس منظر سے غائب کر دیئے گئے۔ یہ وہ عرصہ تھا جب امریکہ کی جنگ کیمونسٹ دہشت گردوں کے خلاف تھی۔ اسی لیے جنرل پنوشے ان کا سب سے مضبوط حریف اور لاڈلا تھا۔ ساری دنیا اس کے اقدامات کے خلاف چیخ رہی تھی لیکن اس نے اس کی ذرا برابر پروا نہ کی کیونکہ اسے ایک عالمی طاقت کی اشیرباد حاصل تھی۔

باقی دنیا کو بتانے کے لیے کہ وہ لوگوں کی مظلوم مگر خاموش اکثریت کا نمائندہ ہے، اس نے 1980ء میں ایک ریفرنڈم کرایا اور پھر خود ہی اپنے آپ کو 8 سال کے لیے چلّی کا صدر قرار دے دیا۔ اس ریفرنڈم کے بعد اس نے دنیا بھر کو باور کرایا کہ عوام نے اس کے دیئے آئین کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس آئین کے تحت تحریر کیا گیا تھا کہ گیارہ ستمبر 1973ء سے لے کر آج تک ملٹری کے کیے گئے تمام اقدامات جائز ہیں اور یوں اسے یونیفارم کے اندر صدر رہنے کے لیے مزید آٹھ سال کی اجازت دے دی گئی۔

لیکن اگلے آٹھ سال دنیا کی تاریخ میں عجیب و غریب تبدیلیوں کے سال تھے۔ روس افغانستان میں آ چکا تھا اور اس کی شکست مقدر ہو چکی تھی۔ پنوشے اب اتنا لاڈلا نہیں تھا۔ عوام میں اس کے خلاف آہستہ آہستہ غم و غصہ بڑھنے لگا۔ جا بجا جلوس نکلتے، پولیس سے مڈبھیڑ ہوتی، ان لوگوں کو غدّار کہہ کر گرفتار کر لیا جاتا، ہنگامے زیادہ بڑھے تو جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے بم برسائے جانے لگے۔

روس کی شکست واضح ہونے لگی تو پنوشے کے سرپرست، امریکہ نے بھی چلّی میں جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کی باتیں شروع کر دیں۔ پنوشے ابھی تک اسی گمان میں تھا کہ وہ ایک منتخب صدر ہے اور اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس نے آئین بھی ایسا بنوایا تھا جس کے مطابق پنوشے کو اس کے کسی بھی جرم کی پاداش میں عدالت میں نہیں گھسیٹا جا سکتا تھا۔ پھر بھی اس نے عوامی احتجاج سے گھبرا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ لوگوں کی پکڑ دھکڑ سخت کر دی۔ اس کی بدقسمتی کہ روس افغانستان میں جنگ ہار گیا، اب امریکہ کے لیے تو نہ ایسی کوئی جنگ تھی اور نہ ہی ایسا کوئی اتحادی۔ سب چلے ہوئے کارتوس تھے۔ خواہ وہ افغانستان کے مجاہد ہوں یا چلّی کا پنوشے۔

امریکہ نے دباؤ ڈال کر اسے آزاد، منصّفانہ اور ایماندارانہ الیکشن کروانے کے لیے کہا۔ وہ الیکشن سے ڈرتا تھا کیوں جانتا تھا کہ عوام اس سے شدید نفرت کرتی ہے۔ مگر اسے مجبوراً الیکشن کروانا پڑے۔ وہ ہار گیا۔ اس کے ہارتے ہی برسراقتدار آنے والی نئی حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا جو اس کی ظالمانہ کارروائیوں پر تحقیق کرے۔ پنوشے کی صدارت بھی ختم ہو چکی تھی اور ساتھ ہی اس کی وردی بھی۔ اس کے اپنے آئین میں فوجی کمانڈروں کے لیے مخصوص سینٹ کی نشستیں رکھی تھیں، نئی جمہوری حکومت نے انہیں بھی فوری طور پر ختم کر دیا۔

ہوا کا رُخ بدلا تو چلّی کی عدالت نے خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور اس کے ڈپٹی کو سات سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ یہ لوگ سپریم کورٹ میں گئے اور کہا کہ آئین میں انہیں تحفظ دیا گیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ انصاف، آئین سے بالاتر ہوتا ہے۔ سزا برقرار رکھی گئی۔ پنوشے علاج کی غرض سے ملک چھوڑ گیا۔ اس لیے کہ جب انہیں سزا سنائی گئی تو اس کے اپنے وفادار فوجی کمانڈروں نے عوامی دباؤ کے تحت اسے تسلیم کیا اور کہا کہ ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔

پنوشے تنہا رہ گیا، اس نے عدالت کے فیصلے کو نہ مانا، تو اسمبلی نے آئین میں ایک ایسی ترمیم کر دی جس کے تحت ان تمام کیسوں کو کھولا جا سکتا ہے جو آرمی ایکشن اور اقتدار کے دوران انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق تھے۔ مگر پنوشے مطمئن تھا کہ اسے عدالت میں نہیں گھسیٹا جا سکتا کیونکہ امریکہ شاید ابھی بھی اس کا سرپرست ہے۔ لیکن کرائے کے قاتل اور قتل کروانے والے کے درمیان ایک عجیب رشتہ ہوتا ہے۔ اسے جب اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اب کام مکمل ہوگیا ہے اور قاتل کا مزید ساتھ قتل کروانے والے کے لیے ہی بدنامی کا باعث ہے تو پھر وہ اسی قاتل کا ہی سب سے بڑا دشمن بن جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اب اس کے اپنے لباس اور کردار پر کوئی دھبہ نہ آئے۔

چلّی میں مقدمہ نہیں چل سکتا تھا، مگر اسی سرپرست امریکہ نے ہی سپین میں ایک جج کی عدالت میں انسانی حقوق کی پامالی اور ظلم و بربریت کا مقدمہ درج کروا دیا۔ وہ پنوشے جسے کبھی عالمی طاقت امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی، اب ایک جج کے وارنٹ سے پناہ حاصل کر رہا تھا، مگر اب اسے پناہ دینے والا کوئی نہ تھا۔ پنوشے کو دماغی حملہ ہوا اور وہ شدید بیمار پڑ گیا۔ ڈاکٹر کی رپورٹ کی وجہ سے پنوشے سپین کی عدالت کے سامنے پیش نہ ہو سکا۔ ادھر چلّی کی عدالت نے جب یہ دیکھا تو جرأت پکڑی اور فیصلہ سنا دیا کہ آئین میں دیا ہوا یہ تحفظ انصاف، انسانیت اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ بیمار، مفلوج اور عالمی طاقتوں کے لیے بیکار پنوشے کو امریکہ نے ہی برطانیہ سے پکڑ کر چلّی کی عدالت کے حوالے کر دیا۔

میں یہاں اس نفرت کا ذکر نہیں کروں گا جو چلّی کے عوام کو اُس سے تھی۔ یہ بھی نہیں بتاؤں گا کہ وہ جب لوگوں کو اپنے ترقی کے کارنامے بتاتا تو لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے۔ اسے آئینی ترامیم، اپنی بنائی گئی عدلیہ حتیٰ کہ اپنی فوج بھی بدترین ذلت سے نہ بچا سکی۔ وہ چلّی کی عدالت کے سامنے پیش ہوتا رہا اور فیصلہ سنانے سے پہلے ہی مر گیا۔ آخری عمر میں اس مفلوج حالت میں جب اس کی زندگی کی صرف چند ساعتیں باقی تھیں وہ امریکہ کی بے وفائیوں کے بارے سوچتا تو ضرور ہوگا کہ کاش اس نے مافیا کے لیے کام کرنے والے اُجرتی قاتلوں کی کوئی ایک کہانی ہی پڑھ لی ہوتی تو اسے اندازہ ہو جاتا کہ کام ختم ہونے کے بعد اسے ختم کر دیا جائے گا۔ وہ یہ جانتا تو اپنے عوام پر کبھی ظلم نہ کرتا۔

اجرتی قاتل فردِ واحد ہو یا کوئی حکمران، ساری زندگی وہ لوگوں کے انتقام کے خوف میں ہی گزارتے ہیں اور پھر ذلت کی موت مرتے ہیں۔ جبکہ وہ جو ان سے قتل کرواتا ہے وہ بھی فردِ واحد ہو یا کوئی عالمی طاقت، اس کے سامنے ایک بہت بڑا سا کوڑے دان پڑا ہوتا ہے۔ جیسے ہی کام ختم ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسی سب سے قریبی ساتھی اور اجرتی قاتل کو اس کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Sorry Larki Ki Umar Ziada Hai

By Amer Abbas