Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Orya Maqbool Jan
  4. Aik Jaisa Aghaz, Aik Jaisa Anjam

Aik Jaisa Aghaz, Aik Jaisa Anjam

ایک جیسا آغاز، ایک جیسا انجام

8جنوری 1870ء، سپین کا ایک چھوٹا سا شہر، ایک فوجی کرنل کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کا نام پرائمو ڈی ریورا رکھا گیا۔ اس کا چچا فوج میں جنرل تھا۔ ایسے خاندانی ماحول میں پلنے اور سپین کی اشرافیہ میں گھومنے سے اس کے اندر بھی فوج میں بھرتی ہو کر اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلنے کی لگن پیدا ہوئی۔ یوں وہ 1888ء میں فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کا فوجی کیریئر انتہائی شاندار رہا۔ اس نے جنگیں لڑیں، محاذوں پر گیا اور مختلف صوبوں میں فوجی گورنر کی حیثیت سے بھی تعینات ہوا۔

سول عہدوں پر اسے سیاسی حکمرانوں نے فوج کو خوش کرنے کے لیے لگایا تھا، مگر ان سول عہدوں پر تعیناتی کے دوران جب اس پر حکمرانی کا نشہ چڑھا تو اس نے اپنا ایک مخصوص ذہن بنایا لیا۔ اس کی سوچ کے مطابق اس ملک کا سیاسی نظام بالکل دیوالیہ ہو چکا تھا، سیاستدان بددیانت اور نااہل تھے اور اس ملک کو درست کرنے کے لیے ایک شدید قسم کی آمریت کی ضرورت تھی جو اسے راہِ راست پر لا کر پٹڑی پر ڈال سکے۔ اس کے لیے یہ موقع جنگِ عظیم اوّل کے بعد ملک کے دگرگوں حالات نے فراہم کر دیا۔ دیگر یورپی ممالک کی طرح اس کا ملک بھی معاشی ابتری کا شکار ہوگیا تھا۔ لوگ افراطِ زر سے تنگ آ چکے تھے۔ کرنسی کی قیمت گر رہی تھی اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔

یہ سب کچھ سیاستدانوں کے بس سے اس لیے باہر تھا، کیونکہ یہ سب کچھ تو عالمی حالت جنگ کی وجہ سے تھا۔ مگر ریورا نے ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج کے ذریعے 23 ستمبر 1923ء کو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس کی تقریر سننے والی تھی۔ "ہم اس وقت تک حکومت کریں گے، جب تک یہ قوم ہمیں ایسی نسل یا ایسے افراد مہیا نہیں کرتی جو بددیانتی اور ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہوں"۔

وہ تقریر کرنا خوب جانتا تھا اور تقریر کے دوران بار بار اشعار بھی پڑھ لیتا تھا۔ حالات کی ستائی ہوئی رعایا اس کی چکنی چپڑی باتوں کے فریب میں آگئی۔ اگرچہ کہ سب سیاسی جماعتوں نے اس کے اقتدار پر قبضے کی مخالفت کی تھی مگر عوام تو مسلسل پراپیگنڈے کی وجہ سے یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہمیں ایک ایسے مستحکم حکمران کی ضرورت ہے جس کو فوج کی پشت پناہی حاصل ہو، تاکہ وہ ملک کو واپس درست راستے پر لا سکے۔ عوامی پذیرائی سے اسے حوصلہ ملا اور اس نے آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر آٹھ جرنیلوں کی ایک حکمران کونسل بنائی اور خود اس کا سربراہ بن بیٹھا۔

اپنے ایجنڈے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اس نے پورے ملک میں جگہ جگہ جا کر جلسوں سے خطاب کیا۔ اپنی تقریروں میں وہ ایسی لفاظی کرتا کہ لوگ یقین کرنے لگے کہ وہ ایک شدید محب وطن شخص ہے۔ اپنے اس جذبہ حب الوطنی کو ثابت کرنے کے لیے اس نے چھوٹے صوبوں میں چلنے والی علاقائی تحریکوں کو کچلنے کا کام شروع کر دیا۔ سپین کا انتہائی قدیم کلچر کیٹلان کے صوبے تک محدود تھا اور عوام اس کلچر سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس نے علیحدگی پسندی کا الزام لگا کر کیٹلان زبان بولنے پر عائد کر دی۔ یہاں تک کہ وہاں کا سب سے مقبول ڈانس سردانا Sardana تھا، ریورا نے اسے بھی پورے ملک میں ممنوع قرار دے دیا۔ گرفتاریاں، ایکشن، مار دھاڑ سب کچھ ہوا۔ صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں نے لکھنا شروع کیا تو سپین کے سب سے اہم تخلیقی ادارے Elateno کلب پر پابندی لگا دی گئی۔

ابھی تک سب کچھ سکون سے ہو رہا تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں معاشی ترقی کا خوب ذکر کرتا۔ مثالیں دیتا کہ میرے آنے سے پہلے پورے ملک میں کتنی کم کاریں تھیں اور اب دیکھو! کاروں کی وجہ سے ٹریفک رکنے لگتا ہے۔ دیکھو ہماری ایکسپورٹ تیس فیصد زیادہ ہوگئی ہے، مگر ان ڈکٹیٹروں کے اندر پلنے والا ایک خوف ہوتا ہے جو انہیں مجبور کرتا رہتا ہے، کہ انہیں سیاسی حمایت کیسے حاصل ہو، تاکہ ان کی فردِ واحد کی حکمرانی کو چند بِکاؤ سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہو جائے۔ پھر کیا تھا اس نے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی ایک جماعت Patriotic Union بنائی اور انتخابات سے پہلے ہی اپنے آپ کو منتخب کرانے کے لیے ایک ریفرنڈم کروا دیا۔

اپنے قائم کردہ الیکشن کمیشن کی وجہ سے ریفرنڈم کے نتائج اس کے حق میں نکلنے ہی تھے۔ اسی دھاندلی کی وجہ تھی کہ عوام اور سیاسی جماعتوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر وہ ڈھیٹ ایسا تھا کہ اس نے اسی ریفرنڈم کو بنیاد بنا کر ایک ایسا آئین اور سیاسی ڈھانچہ ترتیب دے دیا جس کے تحت منتخب اسمبلی اسے صرف مشورے دے سکتی تھی۔ ارکانِ اسمبلی کے مشوروں کو ماننا یا نہ ماننا اس کے اپنے اختیار اور صوابدید پر تھا۔ پرانے آئین کے تحت منتخب اسمبلی کی مدت اب ختم ہو رہی تھی۔ اسے دوسری دفعہ نئی اسمبلی سے اپنے آپ کو مستحکم کرنا تھا، لیکن اب وقت بہت بدل چکا تھا۔

اس کی بظاہر نظر آنے والی معاشی ترقی دراصل ایک سراب تھی جس کا فائدہ صرف اشرافیہ اور جرنیلوں تک محدود تھا۔ اس ترقی کے ثمرات عام آدمی کی دسترس سے بہت دُور تھے۔ افراطِ زر نے لوگوں کا جینا مشکل کر رکھا تھا۔ اس سال تو کسانوں کی فصل بھی اچھی نہ ہوئی تھیں۔ اسے لوگوں کے خیالات کا اندازہ ہونے لگا، تو اس نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے ایک بار پھر ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے فوراً بعد ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ طلبہ ان ہنگاموں میں سرفہرست تھے۔ اب وہ لوگوں کے درمیان جانے سے ہچکچانے لگا۔ بیانات کے ذریعے لوگوں کو دھمکیاں دیتا کہ میں تم سب کو دیکھ لوں گا، تم ملک کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہو۔

دوسری جانب عوام بپھرے ہوئے تھے، کوئی اس کی سنتا ہی نہیں تھا۔ آخر اس نے ایک دن تمام جرنیلوں کا اجلاس بلایا اور عوام کی بجائے اس نے ان جرنیلوں کی طاقت سے اپنی تائید چاہی۔ سپین کی تاریخ میں جرنیلوں کی اس تائید کو ایک نیم دلانہ تائید قرار دیتی ہے، جو جرنیلوں نے اپنے سربراہ کے حق میں مجبوراً دی تھی۔ یعنی ان کا دل کچھ کہہ رہا تھا، مگر زبان سے وہ "ہاں" کا لفظ ادا کر رہے تھے۔ تیز آدمی تھا، فوراً سمجھ گیا، مگر اقتدار چھوڑنے کو کس کا جی چاہتا ہے۔ اس نے ایک اور چال چلی فوج میں پروموشن کا معیار سیاسی وفاداری اور ذاتی پسند اور ناپسند کو بنا دیا۔

ادھر لوگوں کے جلوس اور ہنگامے عروج پر تھے اور ادھر "ریورا" اپنے اقتدار کو مضبوط بنا رہا تھا۔ لیکن ہر آمر کے اقتدار کا آخری زمانہ بند مٹھی میں ریت کی طرح ہوتا ہے۔ جتنی مٹھی زور سے بھینچو گے، ریت اتنی ہی جلدی ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ وہی ہوا ملک میں ہنگامے، بدامنی، بیروزگاری اور افلاس کو دیکھتے ہوئے اس کے اپنے ہی چنے ہوئے اور اپنے ہم پیشہ جرنیلوں نے ایک دن اس سے استعفیٰ مانگ لیا، مگر اس پر ایک مہربانی کی اور اسے لوگوں کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے بیرون ملک روانہ کر دیا۔ وہ جلاوطنی میں صرف چند سال اپنے تخت و تاج اور محکوم ملک کی ہواؤں کو ترستا ہوا، ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا۔

دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں جب بھی کبھی کسی ایسے شخص کے قصے سے گزرتا ہوں جو لوگوں کی مرضی و منشاء کے خلاف اپنے ایجنڈے اور اپنی بقاء کے لیے کوشش کر رہا ہوتا ہے تو پتا نہیں کیوں ان سب میں بے پناہ مماثلت نظر آتی ہے، عادات و اطوار میں، رنگ ڈھنگ میں اور چال چلن میں، لوگوں کو جاہل اور خود کو عقل کل سمجھنے میں یہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب کا آغاز بھی ایک ہی طرح کا ہوتا ہے اور ان کا انجام بھی ایک جیسا۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi