Wo Nokri Ko Mili Nahi, Wo Afsos Jo Raha Nahi
وہ نوکری جو ملی نہیں، وہ افسوس جو رہا نہیں

اپنے ملک پاکستان سے باہر جا بسنے کی خواہش دل میں پلتی تھی۔ دل کو ٹٹولوں تو شاید یہ آرزو اب بھی کسی کونے میں دبی ہو۔ میرے خوابوں میں جو پردیس بسا ہے اس میں ایک مناسب سی معاشی آسودگی ہے، صاف ستھری آب و ہوا ہے، خوش اخلاق اور ملنسار لوگ ہیں، کوئی سڑکوں پر تھوکتا نہیں ہے، کوڑے کو کوڑے دان میں ڈالتا ہے، قانون شکنی نہیں کرتا، زندگی کی بنیادی ضروریات دستیاب ہوتی ہیں، نل کھولیں تو ہوا کے بجائے پانی آتا ہے، جہاں بجلی پہنچانے والا ٹرانسفارمر ہر ہفتے خراب نہیں ہوتا، اسے ٹھیک کرانے کے لیے بجلی کے محکمے کو فون کریں تو فون سنا جاتا ہے اور شکایت صرف درج ہی نہیں کی جاتی حل بھی کی جاتی ہے، کسی جائز کام کے لیے رشوت نہیں دینا پڑتی، جہاں کے محکمے عوام کی عزت کرتے ہیں، ٹیکس پہ پلنے والے اہل کار ٹیکس دینے والوں کا اکرام کرتے ہیں۔ بس اس قسم کا پردیس ہے جو میرے ارمانوں میں آباد ہے۔
جب آتش جوان تھا اور کسی اجنبی سرزمین پر آباد ہونے کی خواہش سوا تھی تو اس کے عملی مندرجات پر بھی غور کیا کرتا تھا۔ چوں کہ تعلیم صحافت کی حاصل کر رکھی تھی اور ذریعہ روزگار بھی صحافت ہی تھا، تو سمجھ یہی آتی تھی کہ دیار غیر میں بھی صحافت سے ہی معاش کمائیں گے۔ جن ممالک کے صحافتی اداروں میں اردو زبان کا شعبہ بھی ہے، وہاں درخواستیں بھیجا کرتا تھا۔ وائس آف امریکا کی اردو سروس بھی ایک ایسا ادارہ تھا جہاں نوکری کرنے کی چاہ تھی۔ پاکستان کی بصری صحافت جس ڈگر پر چل نکلی تھی اس سے جی اوبتا تھا۔ یوں ایک خیال یہ بھی تھا کہ وائس آف امریکا جیسے عالمی ادارے میں نوکری ملی تو تنخواہ اور صحافت، دونوں ہی معیاری ہوں گی۔ پھر امریکا جا بسنے کے ارمان بھی پورے ہو جائیں گے۔
یہی سوچتا رہتا تھا کہ وائس آف امریکا میں نوکری ہوگئی تو واشنگٹن ڈی سی یا ورجینیا کے کسی شاداب سے علاقے میں رہائش ہوگی۔ زیر زمین ریل پر بیٹھ کر دفتر جایا کروں گا۔ دفتر سے چند اسٹاپ پہلے اترا کروں گا۔ اسٹار بکس سے کافی کا کپ لے کر باقی کا راستہ پیدل چلوں گا۔ شام اترے گی تو آسمان کی شفق کو آنکھوں میں سمیٹوں گا۔ زندگی سہل ہوگی اور ایک ڈگر پر چلتی رہے گی۔
جانے کب تک اس چاہت کو سینے سے لگائے رکھا۔ کتنی ہی عرضیاں بھیجیں۔ ہر عرضی کے بعد امید بندھی، ہر انکار کے بعد دل ٹوٹا، لیکن عرضیاں بھیجنے کا سلسلہ نہ چھوٹا۔ وائس آف امریکا کی نوکری میرے خیالوں کا وہ چشمہ تھا جس نے میرے خوابوں کی پیاس بجھانی تھی۔ بہت ایڑیاں رگڑیں لیکن یہ چشمہ نہ پھوٹا۔
حوصلے ٹوٹے، خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے ہاتھ فگار ہوئے، آنکھیں ڈبڈبائیں، جس سے دعائیں مانگی تھیں اس سے شکوے بھی کیے۔ مبشر زیدی صاحب کی تحریر پڑھ کر معلوم ہوا کہ امریکی حکومت نے وائس آف امریکا کے تمام ملازمین کو گھر بھیج دیا ہے۔
جس مشکل کا وائس آف امریکا کے ملازمین کو آج سامنا ہے، یہی مشکل مبشر علی زیدی صاحب پر (غالباً) 2020 میں آئی تھی۔ مبشر زیدی صاحب تو ایک با ہنر اور حوصلہ مند آدمی ہیں۔ انہوں نے تو اس مشکل کو بھی اپنے لیے موقع بنا لیا۔ اوبر چلا کر گھر چلایا، اسی مصروفیت میں دو ماسٹرز کیے، 20 سے زیادہ سرٹیفیکیشنز کیں، ٹیچنگ کورس مکمل کیا اور سختیاں کاٹنے کے بعد ایک نیا کریئر کامیابی سے شروع کر چکے ہیں (ان کی مزید کامیابی اور ترقی کے لیے بہت سی دعائیں)۔
سوچتا ہوں اگر میری نوکری وائس آف امریکا میں ہوگئی ہوتی اور آج ایسی مشکل کا سامنا مجھے ہوتا تو میں کیا کرتا۔ مجھ میں تو حوصلے کی بھی کمی ہے اور initiative لینے سے بھی گریز ہی رہتا ہے۔ ڈھنگ کی نوکری مجھے کوئی ملنی نہیں تھی اور نئے امکانات پر میں نے غور نہیں کرنا تھا۔ پھر جیسا مبشر زیدی صاحب نے بیان کیا، ایسے استحصال کا وائس آف امریکا میں مجھے سامنا ہوتا تو میں ٹوٹ ہی جاتا۔
صحافت کی نوکری پاکستان میں بھی آسان نہیں۔ یہاں کے میڈیا ورکرز کو بھی بے روزگاری کا سامنا ہے۔ جو برسر روزگار ہیں، کئی اداروں میں انہیں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملتیں۔ لیکن امریکا جیسا ملک اپنے سرکاری نشریاتی ادارے کے ملازمین سے ایسا کرے گا، اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
دعائیں قبول نہ ہونے پر جس سے شکوے کیے تھے، آج وہ مجھے دیکھ کر شفقت سے مسکرا رہا ہے۔ اسی سے دعا اب یہ ہے کہ وائس آف امریکا کے تمام ملازمین کا ہاتھ تھام لے اور ان کی مشکلیں آسان کر دے۔ ان کے لیے پہلے سے کہیں بہتر کوئی سبب بنا دے۔ آمین۔