Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Mah e Shaban Ki Fazilat Aur Ehmiat

Mah e Shaban Ki Fazilat Aur Ehmiat

ماہ شعبان کی فضیلت اور اہمیت

"شعبان" ہجری تقویم کا آٹھواں مہینہ ہے، جو اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے باقی مہینوں میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے، اس مہینے میں رمضان المبارک کے استقبال، اس کے سایہ فگن ہونے سے قبل ہی اس کی مکمل تیاری اور مختلف ضروری امور سے یکسوئی کا بھرپور موقع ملتا ہے، یہ وہ قابل قدر مہینہ ہے، جس کی نسبت حضور اکرم ﷺ کی طرف کی گئی، اور نبی کریم ﷺ نے اس میں خیر و برکت کی دعا فرمائی، نیز اس ماہ کو اعمال کی پیشی کا مہینہ قرار دیا، اور امت کی اس سلسلہ میں غفلت و بے توجہی کی پیشین گوئی دیتے ہوئے فرمایا، رجب اور رمضان کے درمیان ایک ایسا مہینہ ہے، جس سے لوگ عام طور پر غفلت برتتے ہیں۔

(سنن نسائی)

غور کیا جائے، تو مستند روایات اور تاریخی واقعات کے تناظر میں اس ماہ کی بڑی فضیلت اور اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

(1) ماہ شعبان کی وجہِ تسمیہ۔

"شعبان" تشعب سے ماخوذ ہے، اور تشعب کے معنیٰ تفرق (پھیلنے اور عام ہونے) کے ہیں، چونکہ اس ماہ میں خیر کثیر پھیل جاتا ہے، اس کو شعبان کہا جاتا ہے، یا اس مہینے میں اہل عرب حرمت والے آخری مہینے رجب المرجب کے بعد لوٹ مار کے لیے منتشر ہو جاتے تھے، اسی مناسبت سے اس کو شعبان کہتے تھے۔ بعض علماء نے شَعبان کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے، کہ یہ شعبہ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی حصہ کے ہیں، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل کے خاص شعبہ جات کام کرنا شروع کر دیتے ہیں ، اس لئے بھی اسے شعبان سے موسوم کیا جاتا ہے۔

(ملخص از فتح الباری شرح البخاری)

(2) ماہ شعبان کے اہم تاریخی واقعات۔

اس مہینے میں بہت سارے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے۔

(1) جناب نبی کریم ﷺ کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔

(2) اسی مہینہ میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوۂ بنو المصطلق پیش آیا۔

(3) اسی مہینہ میں رسالت مآب ﷺ نے حضرت حفصہ اور جویریہؓ سے نکاح فرمایا۔

(4) تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینہ میں ہوا۔

(5) اسی مہینے میں حضرت حسین بن علیؓ، حضرت زین العابدین اور حضرت ابوالفضل عباس و غیرہم کی ولادت ہوئی۔

(6) صحابہ و تابعین میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ، حضرت انسؓ، حضرت عرباضؓ، اور امام ابوحنیفہؒ کی وفات ہوئی۔

(3) نبی کریم ﷺ کا کثرت سے روزوں کا اہتمام۔

رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت میں روحانیت اور ملکوتیت کو بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم فرمائی، وہیں نفل روزے رکھنے کی بھی ترغیب دی۔ بالخصوص ماہ شعبان میں رسالت مآب ﷺ سے بہ کثرت روزے رکھنا منقول ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، کہ آنحضرت ﷺ جب روزے رکھنا شروع فرماتے، تو ہم کہتے کہ آپ ﷺ اب روزہ رکھنا ختم نہیں کریں گے، اور جب کبھی روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو رمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور آنحضرت ﷺ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔

(صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969، صحیح مسلم:رقم الحدیث 1156)

(4) شعبان میں لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ کچھ دنوں کے علاوہ تقریباً شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ ﷺ تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔

(جامع الترمذی: رقم الحدیث736)

یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے، کہ نبی کریم ﷺ اکثر شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر" کل" کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، کہ میں نے آپ ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے، جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔

(نسائی، مسند احمد، ابو داود 2076)

(5) شعبان کے آخری دنوں میں روزے کی ممانعت۔

بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا گیا ہے۔ تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو، اور رمضان کا امتیاز نمایاں ہو کر سامنے آئے۔

(بخاری، کتاب الصوم۔ مسلم، کتاب الصیام)

(6) شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی حکمتیں۔

(اول) جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت کی ہے۔ چوںکہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے، اس لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ میں چاہتا ہوں، کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہو تو میں روزے کی حالت میں رہوں، (نیل الاوطار)

(دوم) پورے سال مرنے والوں کی فہرست اس ماہ میں دی جاتی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے، کہ پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ یہ چاہتے تھے، کہ جب میری وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں، تو میں اس وقت روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث)

(سوم) نفلی روزوں کا خاص اہتمام۔

رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار و برکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں نبی اکرم ﷺ شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے، اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے، اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے، اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔

(7) شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت۔

یوں تو مکمل ماہِ شعبان مختلف جہتوں سے برکتوں اور سعادتوں کا مجموعہ ہے، خصوصاً اس کی پندرہویں رات جس کو شبِ برات اور لیلۂ مبارکہ کہتے ہیں، باقی شعبان کی راتوں ، بلکہ تمام سال کی اکثر راتوں سے افضل ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، (اے عائشہ!) کیا تمہیں معلوم ہے، کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں ، بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

(شعب الایمان للبیہقی:رقم الحدیث 3554)

ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ہے، کہ آپ ﷺنے فرمایا، (اے عائشہ!)کیا تمہیں معلوم ہے، کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ، اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اس سال جتنے انسان پیدا ہونے والے ہوتے ہیں، وہ اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں، اور جتنے لوگ اس سال میں مرنے والے ہوتے ہیں، وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ اس رات بنی آدم کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔

(مشکوۃ المصابیح: رقم الحدیث1305)

(8) خطبہ استقبال اور رمضان۔

اللہ کے رسول ﷺ شعبان کے مہینے میں صحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرتے اور خطبہ دیتے، جس میں انہیں رمضان کے فضائل و مسائل بیان فرماتے، رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے۔

ایسے ہی ایک خطبہ میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے، جو ہزار راتوں سے بہتر ہے (یعنی شب قدر)۔ اللہ تعالیٰنے اس ماہ کے روزے فرض کیے، اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قرار دیا، تو جس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیر انجام دیا، اس نے دیگر ماہ کے فرائض کے برابر نیکی حاصل کرلی، یہ صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔

یہ وہ ماہ مبارک ہے، جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا۔ روزے دار کے روزے میں کمی کیے بغیر اس نے روزے دار کے برابر ثواب حاصل کیا اور خود کو جہنم سے بچالیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سے ہر شخص تو روزے دار کو افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس نے روزے دار کو پانی کا گھونٹ پلایا، یا دودھ کا گھونٹ پلایا، یا ایک کھجور کے ذریعے افطار کرایا، اس کا اجر اسی کے برابر ہے، اور اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔ اس سے روزے دار کے اجر میں کمی نہیں ہوگی۔ جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیا، اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔

(مشکٰوۃ شریف)

لہٰذا ہم ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام، اس کی عظمت، اس کی فضیلت، اس کے مقصد اور اس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیں ، تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اور اس بات کا پختہ ارادہ کریں، کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، جو روزہ کا مقصد اور ماحصل ہے۔ رمضان و عید وغیرہ کی ضروری خریداری بھی شعبان میں کر لینی چاہیے، تاکہ رمضان میں بازار جانے کی نوبت نہ آئے، اور ہم ہر قسم کے جھمیلوں سے یکسو ہو کر رمضان المبارک کو خالص عبادات میں گزار سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں شعبان کی خوب قدر کرنے، زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ میں حصہ لینے اور رمضان کی تیاری کرنے کی بھرپور توفیق عطاء فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن سنت کے مطابق دین سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Balay

By Mubashir Ali Zaidi