Koh Kaaf Ke Daman Mein Jang
کوہ کاف کے دامن میں جنگ
قفقاز یا کوہ کاف براعظم ایشیا کا ایک جغرافیائی، سیاسی اور سٹریٹجک خطہ ہے۔ کوہ کاف کا طویل پہاڑی سلسلہ یورپ اور ایشیا کی قدرتی سرحد ہے۔ کوہ کاف کے بارے میں بہت سی دیو مالائی داستانیں مشہور ہیں۔ جنوبی قفقاز یا South Caucasus میں آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا وغیرہ واقع ہیں۔ آذربائیجان ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے جس کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے اور باکو اس کا دارلحکومت ہے۔ اس کی ایک سرحد Caspian sea سے ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا واقع ہے۔ دونوں ملکوں کا عشروں سے ایک خطہ پر تنازعہ چل رہا ہے جس کو نگارنوکاراباخ کہتے ہیں۔ یہ نگارنوکاراباخ کے علاقے میں آرمینیائی نسل آباد ہے اور یہ آذربائیجان کے اندر ایک Enclave ہے۔
Enclave سے مراد ایسا خطہ ہے جو کسی ملک کی سرحدوں کے اندر واقع ہو لیکن اس پر کنٹرول کسی دوسرے ملک کا ہو۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران جب خلافت عثمانیہ کمزور ہوئی اور روس میں بالشویک انقلاب آیا تو 1920 میں قفقاز کا علاقہ سویت یونین کے قبضے میں چلا گیا۔ سویت یونین نے آذربائیجان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا اور نگارنوکاراباخ کے علاقے کو آذربائیجان میں شامل کردیا۔ جوزف اسٹالن کی موت کے بعد جب سویت یونین کے زیرانتظام علاقوں میں نسلی فسادات اور علیحدگی کی تحریکیں شروع ہوئی تو نگارنوکاراباخ کے آرمینیائی باشندوں نے بھی تحریک شروع کردی۔ 1985 میں میخائل گوربا چوف سوویت یونین کا سربراہ بنا اور اس نے اصلاحات کی تو اس کے نتیجے میں یہ تحریک اور مضبوط ہوئی۔ دیوار برلن کے گرنے کے بعد بالآخر دسمبر 1991 میں سویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور وسط ایشیا میں کئی آزاد ریاستیں وجود میں آئیں۔ ان میں آذربائیجان اور آرمینیا بھی شامل ہیں۔
1988 میں نگارنوکاراباخ جنگ کا آغاز ہوا اور یہ 1994 تک جاری رہی۔ آرمینیا کا دعوی یہ ہے کہ اس میں آرمینیائی نسل کے لوگ آباد ہیں لہذا یہ علاقہ آرمینیا کا ہے اور تاریخی طور پر یہ علاقہ آذربائیجان کا حصہ ہے تو آذربائیجان اس علاقے پر اپنا دعوی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ علاقہ آذربائیجان کا ہے۔ آرمینیا اس علاقے میں بغاوت کرواتا رہتا ہے۔ 1994 میں ایک ریفرنڈم بھی ہوا جس کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان یہ تنازعہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ 27 ستمبر 2020 کی صبح آرمینیا نے نگارنوکاراباخ پر قبضہ کی خاطر آذربائیجان پر حملہ کردیا۔ دونوں ملکوں میں باقاعدہ جنگ شروع ہوچکی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور بھاری اسلحہ سرحدوں پر پہنچا دیا گیا ہے۔ دونوں طرف سے اب تک کئی اموات ہو چکی ہیں۔
اس جنگ میں ترکی آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہے۔ روس آرمینیا کے ساتھ دفاعی معاہدے کرچکا ہے۔ اس جنگ سے ترکی اور روس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ترکی اور روس کے تعلقات مشرق وسطی کی سیاست کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری طرف مشرق وسطی کے عرب ممالک بھی ترکی کی مخالفت کی وجہ سے آرمینیا کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ آذربائیجان او آئی سی کا ممبر ہے اور او آئی سی نے آرمینیا کی مذمت کی ہے۔ اس سے مشرق وسطی میں ترکی اور خلیج کے ممالک کے درمیان پہلے سے موجود سرد جنگ شدت اختیار کرسکتی ہے۔ ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ آذربائیجان کے آذری بنیادی طور پر پر ترک ہیں۔ آذربائیجان ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے اور Caspian sea میں گیس اور دوسری معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ ترکی کوہ کاف میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ آرمینیائی نسل کشی بھی ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ تعلقات کی ایک اہم وجہ ہیں۔
پاکستان واحد ملک ہے جو آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتا اور نگارنوکاراباخ کے علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تصور کرتا ہے۔ آرمینیا کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ انڈیا اور آرمینیا میں دفاعی معاہدے موجود ہیں۔ انڈیا آرمینیا کو اسلحہ بھی فراہم کرتا ہے۔ آذربائیجان نے کشمیر مسئلہ پر ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ یہ خطہ چین اور ایران کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم اور موجودہ دور کے Belt Road initiative بھی اس کوہ کاف کے دامن میں سے گزرتا ہے۔ International North–South Transport Corridor بھی عالمی تجارت کے لیے اہم روٹ ہے جو انڈیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے جو اس جنگ کے نتیجے میں متاثر ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے جنگ روکنے کا کہا ہے۔ یہ اس خطے کی ایک غیر متوقع جنگ ہے جو عالمی سیاست پر اثرانداز ہو گی۔ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے دوراندیش فیصلے کرے۔