Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Insan Aur Samaji Akhlaqiyaat

Insan Aur Samaji Akhlaqiyaat

انسان اور سماجی اخلاقیات

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے بلند مقام پر فائز کیا اور اسے عقل و شعور کی وہ دولت عطا کی جس کی بدولت وہ تمام مخلوقات پر برتری رکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہی انسان، جو دوسروں کے لیے باعثِ رحمت اور مثالی کردار بننے کے لیے پیدا کیا گیا تھا، آج اکثر اپنی اخلاقی پستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

دنیا میں تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات پائی جاتی ہیں، مگر اگر ان میں غور کیا جائے تو کوئی بھی جاندار ایسا نہیں جو اپنے ہی جیسے کسی دوسرے جاندار کا مذاق اڑائے، اسے طنز و تحقیر کا نشانہ بنائے، یا اس کی کمزوریوں کو نمایاں کرکے اسے شرمندہ کرے۔ یہ منفرد اور افسوسناک "صلاحیت" صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ دوسروں کی شخصیت، شکل و صورت، یا کسی بھی پیدائشی عنصر پر تنقید کرکے خود کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں مذاق اور تضحیک کے درمیان فرق تیزی سے مٹتا جا رہا ہے۔ کبھی کسی کی شکل و صورت کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی کسی کی زبان، لہجے، رنگ یا نسل کو۔ حالانکہ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جن پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ نہ کوئی اپنی مرضی سے کسی مخصوص گھر میں پیدا ہوتا ہے، نہ اپنی قوم، رنگ، نسل، یا جسمانی ساخت کا انتخاب کرتا ہے۔ پھر کس بنیاد پر ہم کسی کی تضحیک کو "مزاح" کا نام دے سکتے ہیں؟

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک غیر ملکی خاتون کا پاکستان آنا موضوعِ بحث بن گیا، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اصل بحث ان کے خیالات، تجربات یا مشاہدات پر ہونے کے بجائے، ان کی شخصیت، لہجے اور شکل و صورت کو لے کر کی جا رہی ہے۔ ان کے بارے میں بنائی گئی ویڈیوز اور میمز لاکھوں کی تعداد میں دیکھی جا رہی ہیں اور معاشرے کے ہر طبقے کے افراد اس مذاق کا حصہ بن رہے ہیں۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ہماری سماجی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ ہم کسی کی تذلیل کو تفریح سمجھنے لگے ہیں اور سوشل میڈیا نے ہمیں مزید بے حس بنا دیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے! اگر یہی مذاق ہم پر کیا جائے تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟ کیا ہم اسے برداشت کر سکیں گے؟

سوشل میڈیا بلاشبہ ایک طاقتور ذریعہ ہے، مگر اس کا غلط استعمال ہمارے اخلاقی زوال کی علامت بن رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل، جو سب سے زیادہ متحرک ہے، اس زہر سے متاثر ہو رہی ہے۔

آج کل اسکول اور کالج کے طلبہ "فالوورز" اور "وائرل" ہونے کے جنون میں دوسروں کی عزت نفس کو کچلنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔

مذاق کے نام پر بنائی گئی ویڈیوز، میمز اور پوسٹس لاکھوں کی تعداد میں دیکھی جاتی ہیں، جس سے ایک منفی کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں سب سے زیادہ متاثر وہ نوجوان ہو رہے ہیں جو ابھی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہیں اور جن کی شخصیت کی تشکیل ہو رہی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں کسی کا مذاق اڑانے، تحقیر کرنے اور عزت کو مجروح کرنے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: "اے ایمان والو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے) ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں"۔ (الحجرات: 11)

نبی کریمﷺ نے فرمایا: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"۔ (صحیح بخاری)

ان آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ کسی کی تحقیر کرنا صرف اخلاقی جرم ہی نہیں، بلکہ دینی نقطہ نظر سے بھی ممنوع ہے۔ ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا اور سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔

نوجوان نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مثبت اور تخلیقی مواد تخلیق کریں، نہ کہ دوسروں کی عزت کو مجروح کرکے۔ والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنما اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور نسلِ نو کی صحیح رہنمائی کریں۔

ہمیں چاہیے کہ اپنی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں اور دوسروں کے جذبات کا احترام سیکھیں۔ اگر ہم واقعی اشرف المخلوقات ہونے کے دعوے میں سچے ہیں، تو ہمیں اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ کیا ہم واقعی اس عظیم لقب کے قابل ہیں؟ یا ہماری حرکات ہمیں باقی مخلوقات سے بھی کم تر ثابت کر رہی ہیں؟

وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسروں پر تنقید اور تضحیک کرنے کے بجائے اپنی شخصیت کو سنواریں، اپنے اخلاق کو بہتر کریں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں عزت، رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دیا جائے۔

Check Also

Beeswi Sadi Mein Urdu Novel

By Mansoor Sahil