Ye Jagah Ab Bhi Mere Zehan Mein Kyun Hai?
یہ جگہ اب بھی میرے ذہن میں کیوں ہے؟

وقت کے دریا میں بہتے لمحے ہمیشہ کے لیے گزر جاتے ہیں، مگر کچھ مقامات، کچھ چہرے، کچھ راتیں اور کچھ ہنسی کی گونج دل کے کسی کونے میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ کیا یہ صرف میرا احساس ہے، یا ہر کوئی اپنی کھوئی ہوئی دنیا کے نقشے کو یاد کرتا ہے؟
میرے والد بھی شاید اسی جگہ کے بارے میں سوچتے ہوں، جسے وقت نے مٹا دیا۔ وہ گلیاں، وہ درخت، وہ صحن جہاں بچپن میں دوڑتے تھے، کیا وہ ان کے دل میں بھی اسی شدت سے بستے ہیں جیسے میرے اندر؟ وقت تو گزر گیا، مگر کچھ جگہیں ذہن میں کیوں باقی رہتی ہیں؟
میرا بچپن، وہ دن جب ہم دادا کے گھر جاتے تھے، وہ کھلی فضا، وہ کھاٹ جس پر سوتے وقت آسمان ہماری چھت ہوتا تھا، وہ پرانے قصے، وہ چاندنی راتیں، سب کچھ جیسے ہوا میں کہیں محفوظ ہوگیا ہو۔ زندگی آج بہت آگے بڑھ چکی ہے، شہر بدل گئے، لوگ بدل گئے، پر وہ راتیں، وہ لمحے آج بھی ذہن میں ویسے ہی تازہ ہیں۔
یہ کتنا عجیب ہے کہ ہم اس زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ماضی کا ایک سایہ ہمیشہ ہمارے ساتھ چلتا ہے۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں، جتنی بھی بڑی عمارتوں میں رہنے لگیں، جتنا بھی جدید طرز زندگی اپنا لیں، مگر بچپن کی وہ مٹی، وہ دیواریں، وہ گلیاں ہمیں کیوں یاد رہتی ہیں؟ شاید اس لیے کہ وہ لمحے خالص تھے، ان میں بناوٹ نہیں تھی، ان میں کوئی دنیاوی خواہش نہیں تھی۔
کیا میرے والد کو بھی وہی یادیں ستاتی ہوں گی؟ کیا وہ بھی کبھی سوچتے ہوں گے کہ اس جگہ کو چھوڑنا ایک غلطی تھی؟ یا شاید ان کے لیے وہ سب صرف ایک پرانی کہانی ہو؟ عمر کے ساتھ شاید یادوں کی شدت کم ہو جاتی ہے، مگر ان کی گہرائی بڑھ جاتی ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ ہم وہ وقت نہیں جانتے جب ہم اصل میں خوش تھے۔ جب وہ لمحے ہمارے پاس تھے، تب ہمیں ان کی قیمت کا اندازہ نہیں تھا۔ اب جب وہ ہاتھ سے نکل گئے ہیں، تب ہمیں ان کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے کہ جو چیز ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، وہی چیز سب سے پہلے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
شہر میں روشنی بہت ہے، مگر وہ تاریکی جس میں ہم بچپن میں کہانیاں سنتے تھے، وہ کہاں ہے؟ اب زمین پر بستر بچھانے کا کوئی وقت نہیں، کیونکہ زمین سے ہمارا رشتہ ہی ختم ہو چکا ہے۔ ہم آسمان کو چھونے کے خواب دیکھتے ہیں، مگر کھلی چھت پر تکیہ رکھ کر ستاروں کو دیکھنے کا وقت نہیں نکال سکتے۔
دادا کا صحن جہاں کبھی ہم سب جمع ہوتے تھے، وہ اب بس ایک یاد بن چکا ہے۔ اس گھر کی دیواریں شاید ابھی بھی کسی اور کے نام پر کھڑی ہوں، مگر میرے ذہن میں وہ ویسی ہی ہیں جیسے بچپن میں تھیں۔ ہر اینٹ میں ایک کہانی چھپی ہے، ہر دروازے پر کسی کی ہنسی گونجتی تھی۔ مگر وقت کی گرد نے ان سب کو کسی پرانے خواب میں بدل دیا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز چلی جاتی ہے، وہ ہمیں سب سے زیادہ یاد آتی ہے۔ شاید اسی لیے ہم ماضی میں جینے کی کوشش کرتے ہیں، شاید اسی لیے وہ جگہیں، وہ لوگ، وہ لمحات ہمیں ستاتے ہیں جو حقیقت میں اب کہیں نہیں ہیں۔
لیکن کیا وہ واقعی کہیں نہیں ہیں؟ یا وہ ہمارے اندر ہی کہیں ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں؟ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، وہ وقت، وہ لمحے، وہ جگہیں ہمارے اندر ہی چلتی رہتی ہیں۔ ایک پرانا صحن، ایک کھاٹ، ایک چمکتا ہوا آسمان اور کہانی سنانے والی آوازیں، شاید یہ سب صرف یادیں نہیں، بلکہ ہماری اصل پہچان ہیں۔