Shams Ur Rehman Farooqi
شمس الرحمٰن فاروقی

یہ کوئی پانچ سال پرانی بات ہے جب علی اکبر ناطق کے توسط سے شمس الرحمٰن فاروقی کا نام پہلی بار سنا۔ ہوا یوں کہ ناطق صاحب نے فاروقی صاحب کے وہ تمام خطوط، ای میلز اور میسجز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا شروع کیے جو فاروقی صاحب نے ناطق کو وقتاً فوقتاً لکھے تھے اور ساتھ تاکید کی تھی کہ ان کی زندگی میں یہ تمام خطوط سامنے نہیں آنے چاہیے۔ تو ناطق صاحب نے ان کی بات کا مان رکھتے ہوئے ان کی وفات کے بعد تمام خطوط اور میسجز دوستوں کے ساتھ شیئر کیے۔
فاروقی صاحب کے بارے سن سن کر تجسس پیدا ہوا کہ ان کو پڑھنا چاہیے۔ مسئلہ یہ آن پڑا کہ فاروقی صاحب ٹھہرے نقاد (ستم ظریفی کہ لوگ ان کو صرف نقاد کے طور پر جانتے ہیں) اور ہم تنقید سے دور سے ہی گزرتے تھے۔ پھر پتہ چلا کہ فاروقی صاحب کا ایک ناول "کئی چاند تھے سر آسمان" بھی آ چکا ہے جو سرحد کے آر پار مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔ لیں جی فٹ ناول منگوا لیا اب دیکھا تو 800 صفحات کی ضخیم کتاب، سوچا پنگا لے لیا ہے۔ خیر دوستوں کے تبصرے سن سن کر شوق پیدا ہوا اور بالآخر ناول اٹھا ہی لیا۔ واللہ، انیسویں صدی کا دہلی جو فاروقی صاحب نے دکھایا شاید ہی کسی کے بس میں ہو۔ پھر اس کے بعد آپ کا باقی کام پڑھنا شروع کیا اور جوں جوں آپ کو پڑھتا گیا، عقیدت بڑھتی گئی۔
اب آتے ہیں اس کتاب کے اوپر۔ اس کتاب میں فاروقی صاحب کے وہ خطوط، مضامین، آرا، ای میلز، کتابوں اور شخصیات پر تبصرے شامل ہیں جو فاروقی صاحب وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں محمود الحسن نے بھی بالکل وہی کام کیا ہے جو ناطق صاحب نے کیا تھا (فرق یہ ہے کہ محمود الحسن نے اسے کتاب کو شکل دے دی اور ہم امید کرتے ہیں کہ ناطق صاحب سی کی گئی باتیں بھی کسی دن ہمیں پڑھنے کو ملیں گی)۔ دل تو کر رہا ہے کہ اس کتاب کے ایک ایک پنے کو کھول کھول کر بیان کروں کہ فاروقی صاحب کے الفاظ موتیوں کی مانند ہیں اور یہاں مصنف کا شکریہ ادا کرنے کا دل کر رہا ہے کہ اس نے ایسی عظیم ہستی کے اقوال محفوظ کرکے اردو ادب پر احسان کیا ہے۔
مزید جو باتیں اس کتاب میں پڑھنے کو ملتی ہیں ان میں سب سے پہلے آپ اس بات پر سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ "کئی چاند تھے سر آسمان" لکھنے کا خیال آپ کو کسے آیا اور اور اس میں کون کون سے واقعات سچے تھے اور کون سے فکشنل۔ اس کے بعد ناول کی زبان پر بھی کھل کر بات کی گئی ہے اور ناول ہر اعتراضات کے شافی جواب بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اپنے مخصوص انداز میں مختلف ادیبوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ پریم چند کی افسانہ نگاری اور ستیہ جیت ری کی فلم نگاری پر کڑی تنقید کی ہے اور جب آپ نے لکھا کہ "قرات العین حیدر اردو فکشن میں اتنی بڑی ہستی نہیں ہیں جتنا انھیں بیان کیا جاتا ہے" تو یقین مانیں دل کو قرار سا آ گیا۔ یہ بات میں بھی ہمیشہ سے کرتا تھا مگر کیا کریں ہماری کون مانتا ہے۔ اس کے بعد ترقی پسند اردو افسانہ پر بات کرتے ہوئے آپ منٹو اور بیدی کے اسرار بھی قاری کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
بین الاقوامی ادب پر جس طرح آپ کو عبور حاصل ہے اسے پڑھ کر عجیب سا نشہ ملتا ہے۔ مطلب جب آپ اورحان پامک، کادرے اور فلوبیئر کے کرداروں کا موازنہ مقامی کرداروں سے کرتے ہیں تو انسان کا تخیل ان تمام لوگوں سے ملاقات کر آتا ہے۔ اس کے بعد تحریکوں کا ذکر اور خاص طور پر علی گڑھ تحریک کا جس میں آپ صاف صاف کہتے ہیں کہ "تحریکیں آمرانہ ہوتی ہیں"۔ اس کے بعد ان تمام لوگوں کا بیان جو اردو ادب میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ جن میں شاعروں اور نثر نگاروں کی الگ الگ فہرست ہے۔
آخر میں آپ نے یہ بھی بتایا کہ انسان کو جو پڑھنا چاہیے وہ کیوں پڑھنا چاہیے اور جو نہیں پڑھنا چاہیے وہ کیوں نہیں پڑھنا چاہیے۔ یہ آخر میرے مضمون کا آخر ہے ورنہ اس کتاب پر بات کرنے کو ابھی بھی ہزاروں نکات موجود ہیں۔ الغرض بہت عرصہ بعد ایک ایسی کتاب پڑھی جس نے ذہن و جسم کو سرشاری کی کیفیت سے بھر دیا۔