Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Jurm o Saza Az Fiodor Dostoievski

Jurm o Saza Az Fiodor Dostoievski

جرم و سزا از فیودور دستوئیسکی

ایک دن ہم دوست بیٹھے دنیا کے مختلف ادب پر بحث کر رہے تھے کہ میرے دوست کہتے کہ روسی ادب کا کوئی مقابلہ نہیں۔ میں نے کہا حضور ایسی کیا وجہ ہے کہ روسی ادب کو دنیا کا سب سے تگڑا ادب کہا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ بھائی جہاں اس کی اور ہزا رہا وجوہات ہیں وہیں یہ دیکھیں کہ اس نے دنیا کو چار ایسے ادیب دیے ہیں جن میں سے ایک بھی اگر کسی دوسرے ملک کے پاس ہوتا تو وہ ان کے ادب کو سدرت المنتہی تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا۔

اگر ان کے ناموں کی بات کی جائے تو ان میں ٹالسٹائی، دستوئیسفکی، گورکی، چیخوف کے نام آتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام لوگ کم وبیش ایک ہی وقت میں گزرے ہیں۔ ٹالسٹائی اور گورکی تو نظر سے گزر چکے تھے مگر باقی دو حضرات کی کتب لائیبریری میں ہونے کے باوجود اتنا عرصہ پڑھ نہ پایا۔

دستوئیسکی کے بارے میں جب لوگوں کے تاثرات اور تبصرے پڑھنا شروع کیے تو سب نے لکھا کہ بھائی انسانی نفسیات پر لکھتا ہے۔ مجھے چونکہ نفسیات کا کوئی خاص شوق نہیں تھا تو سوچا چلو پڑھ لیں گے جب موقع ملا۔ لیکن اس کتاب کی تعریف سن سن کر سوچا "زبان خلق کو نقارہ خدا مان لیتے ہیں" اور پڑھنا شروع کر دی۔ اب اس کتاب نے مجھ پر کیا اثر کیا، مجھے کن کن راستوں سے گزارتی ہوئی لے گئی، ذیل میں پیش خدمت ہے۔۔

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو پہلے صفحے سے ہی جکڑ لیتی ہیں، کچھ کتابیں آہستہ آہستہ اپنے حصار میں لیتی ہیں۔ اس کتاب نے میرے گرد مکڑی کی مانند جالا بنا۔ بالکل آرام آرام سے۔ اس کتاب کو پڑھتے وقت مجھے "کرسٹوفر نولن" کی فل "انسپشن"۔ جس طرح اس فلم میں لوگ خواب در خواب اندر اترتے جاتے ہیں بالکل اسی طرح یہ کتاب انسانی شخصیت (نفسیات) کے راز پرت در پرت کھولتی رہتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ مصنف آپ کے سامنے انسانی شعور، تحت الشعور اور لاشعور کے راز کھولتا رہتا ہے۔

ویسے تو روسی ادب میں ایک ایک کردار کے مختلف نام پڑھنے والوں کو اچھنبے میں ڈال دیتا ہے اور اس کے مطالعہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ مگر یہ چیز اس کتاب میں مختلف طریقے سے عود کر آئی ہے۔ جیسے جیسے کردار کے نام تبدیل ہوتے جاتے ہیں ساتھ ہی ساتھ اس کی پہچان بھی بدلتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہیرو کا نام اگر "رسکولنیکوف" ہے تو اس کی شخصیت سخت الجھاؤ لیے ہوئے ہے کہ اسے خود سمجھ نہیں آ رہی وہ کیا سوچ رہا ہے اور کیوں سوچ رہا ہے۔ جہاں وہ "کرایہ دار" ہے وہاں وہ بزدل بن کر مالک مکان سے نظریں چراتا پھر رہا ہے۔ جہاں اسے بوڑھے کو سہارا دینا ہے وہاں وہ "نوجوان" ہے۔

جہاں وہ اپنی ماں اور بہن کے لیے "رودیا" ہے وہاں وہ ان کی محبت میں سرشار ہے اور اپنی خصیص طبیعت سے نظریں چرائے ہوئے ہے اور جہاں وہ "رودیا رومانووچ" ہے وہاں وہ ایک فلسفی اور ادیب کے طور پر دنیا کے سامنے آتا ہے اور ان سب کو اپنے نظریات سے پچھاڑ دیتا ہے۔ یہ میں نے صرف ایک کردار کے بارے بتایا ہے جبکہ اس کتاب کے سارے کردار ہی کم و بیش تین تین چار چار چہرے لیے ہوئے ہیں جو کہانی کو بالکل بھی یکساں نہیں رہنے دیتے۔ یہ چیز اس طرح سے آج تک کسی اور کتاب میں میرے سامنے نہیں آئی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں عورت کی نفسیات کے بارے "عصمت چغتائی" سے بہتر کسی نے نہیں لکھا۔ مگر میں نے اسے جب بھی پڑھا مجھے تو اس کی لکھائی میں عورت کی نفسیات سے زیادہ اس کے اپنے دماغ کا فتور نظر آیا۔ واللہ عالم

خیر دستویئفسکی کے لیے میں اگر ایک لفظ کا انتخاب کروں تو وہ ہے "جن"۔ جس طریقے سے کہانی اس نے بنائی ہے اور لے کر چلا ہے وہ کم ہی کسی کا خاصہ ہے۔

ایک اور چیز جو اس کتاب میں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے وہ مصنف کا مضمون ہے۔ کہنے کو تو وہ مضمون ایک کہانی کا حصہ ہے مگر اس کے نکات اتنے جاندار ہیں کہ اسے نفسیات کی فیلڈ میں ریفرنس کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں دستوئیفسکی نے دنیا میں دو طرح کے لوگوں کے بارے بتایا ہے۔ ایک "معمولی لوگ" اور دوسرے "غیر معمولی لوگ"۔ ہر دو دنیا میں کس طرح رہتے ہیں اور انھیں کس طرح رہنا چاہیے وہ بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ میرے خیال میں "نطشے" کا "سوپر ہیومن" کا نظریہ دستوئیفسکی سے ہی اخذ کردہ ہے کیونکہ دستوئیفسکی کے اس مضمون میں تمام وہی نکات ہے جو نطشے اپنی تحاریر میں بیان کرتا ہے۔

Check Also

Showbiz Ki Khofnak Dunya

By Muhammad Irfan Nadeem