Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Kiran Arzoo Nadeem/
  4. Ramazan, Marx Aur Islam Ka Muashi Nizam

Ramazan, Marx Aur Islam Ka Muashi Nizam

رمضان، مارکس اور اسلام کا معاشی نظام

آج پہلے روزے کی افطاری تھی، ایک غلطی کی درستگی کرنی تھی کہ دو سیکولر ممالک انڈیا اور بنگلادیش میں روزہ نہیں ہوا تھا، نیشنلسٹ علماء شاید ایک دن سب مسلمانوں کا روزہ رکھنے کے لئے بھی ذہنی طور پر آمادہ نہ ہوتے۔

جب میرے بچے چھوٹے تھے تو میں ان کی افطاری کے وقت اُن کا پلیٹر بنایا کرتی تھی جو ان کو بہت پسند آتا تھا۔ یہ ایک طرح سے آغاز میں روزہ رکھنے کا انعام ہوتا تھا اور بجوں کو روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے کے لئے بھی کہ وہ اہنا پلیٹر دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ بچے تو اب بڑے ہو گئے ہیں لیکن شاید اتنے بڑے نہیں ہوئے کیونکہ فاطمہ اور مریم کو اب بھی پلیٹر کا شوق ہوتا ہے۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ اب وقت ہے کہ ٹریننگ دی جائے کہ رمضان کا مہینہ اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ روزہ سادگی سے کھولا جائے۔

کھجور کے ساتھ افطار کرکے کھانا کھا لیا جائے، لیکن شاید اس ٹریننگ کی ضرورت بچپن ہی سے شروع کر دینی چاہیے، تھوڑی بہت ٹیبل سجانے کے بعد مجھے یوں لگا کہ شاید مجھے بھوک نہیں ہے۔ میں بہت تھوڑا سا کھا کر اُٹھ گئی کیونکہ اب جو حالات جا رہے ہیں نہ معلوم کتنے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں جن کو کھانا نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ حساب کتاب بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں چند چیزیں رکھ کر اپنے آپ کو مجرم تصور کرتی ہوں اور نہ جانے کتنے لوگ اربوں ہضم کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہی لیتے۔

دولت کی یہ ہی تقسیم اگر متوازی ہو تو شاید کسی بھی شخص کی ضرورت رُکی نہ رہے اور ہماری دنیا جنت کا گہوارہ بن جائے۔

کمیونزم کے مدعی بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں کہ دنیا کی معاش کا حل مارکس نے یہ بتایا تھا کہ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق دیا جاِئے- اُصول بڑا درخشندہ اور تابناک ہے اور نوعِ انسان کی مشکلات کا اطمینان بخش حل، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ اُصول مارکس نے نہیں بلکہ خضورؐ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور مارکس کی طرح محض نظری طور پر پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس پر عمل کرکے بھی دیکھایا تھا۔

مارکس نے تو اس چیز کا اعتراف کر لیا تھا کہ انسانی مشکلات کا حل اِسی اُصول میں ہے لیکن میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں وہ جذبہ کہاں سے لاؤں جو کمائی تو اپنی صلاحیت کے مطابق کرے لیکن لے ضرورت کے مطابق۔ وہ جذبہ ہمارے دین میں موجود ہے۔ حضرت عثمانؓ نے ایک دفعہ کھانے کے بعد اپنی زوجہ محترمہ سے پوچھا کہ کھانے کہ ساتھ کوئی میٹھا ہے تو اُنہوں نے بتایا کہ بیت المال سے جو راشن آتا ہے اس میں میٹھا نہیں ہوتا، بات آئی گئی ہوگئی۔

سات دن بعد کھانے کے ساتھ حلوہ بھی تھا۔ آپ نے اپنی زوجہ محترمہ سے دریافت کیا کہ میٹھا کیسے بن گیا تو انہوں نے بتایا کہ اپنے آٹے میں سے میں روزانہ مٹھی بھر آٹا علیحدہ کر لیتی تھی اور ہفتہ کے بعد میں نے اس آٹے کے بدلے میں شکر خرید لی اور حلوہ بنا لیا۔ کھانا کھایا اور بیوی کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا بیت المال تشریف لے گئے اور کہا کہ ہمارے راشن میں مٹھی بھر آٹا کم کر دو کیونکہ ہفتہ بھر کے تجربہ نے بتایا ہے کہ ہمارا گزارا اس آٹے میں بھی ہو جاتا ہے۔

مارکس تو یہ نظام نافظ نہیں کر سکا کیونکہ اس نظام کو نافظ کرنے کا جذبہ محرکہ اُس کو مل نہیں رہا تھا۔ یہ نظام حضرت حضورؐ کے تربیت یافتہ حضرت عثمان جیسا دل کر سکتا تھا اور حضورؐ نے یہ نظام عملی طور پر نافظ کرکے دنیا کو دیکھایا۔ جنگ میں تمام سپاہی یکساں حصہ لیتے تھے کام ہر سپاہی سے اُس کی کارکردگی کے مطابق لیا جاتا اور دیا اُس کی ضرورت کے مطابق جاتا تھا۔

کمیونزم کی خرابی یہ تھی کہ اس نے اللہ کو نکال دیا۔

پیامِ موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ

تو پھر اس نظام کا قیام کیونکر ممکن ہوتا!

اقبال نے کہا تھا کہ

جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

اگر ہم اپنی کتاب کے ساتھ جڑ جائیں!

اقبال کے بقول۔

قرآن میں غوطہ زن اے مردِ مسلماں

خدا کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار۔

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali