Kya Kehte Hain Mumkin Hai Na?
کیا کہتے ہیں ممکن ہے نا؟
بھارت میں ہر سال پندرہ لاکھ نوجوان انجینئر بنتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں قریب پچیس ہزار سالانہ۔ آبادی کے تناسب سے بھی ان کی یہ مقدار ہم سے قریب پندرہ گنا زیادہ ہے۔۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت قریب ایک لاکھ گریجویٹ سالانہ پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات ڈھائی سو ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔
اگر پاکستانی سافٹویئر ہاؤسز کے عمومی حالات کا جائزہ لیا جائے تو قریب سبھی بڑے چھوٹے اداروں میں تربیت یافتہ لوگوں کی شدید قلت ہے۔ سافٹویئر برآمد کرنے والے اداروں کو آئی ٹی پروفیشنلز کو اپنے ادارے میں کام کرتے رہنے پر مجبور کرنے کے کئی جتن کرنا پڑتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں، غیرملکی سیاحتی دورے اور انتہائی پرکشش تنخواہوں کے باوجود سب سے زیادہ اسی میدان میں ملازمین سوئچنگ کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں جہاں کاروباری کساد بازاری اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی دھماچوکڑی کے باعث طاری انتہائی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے تمام صنعتی اور کاروباری ادارے بقا کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر کوئی میدان ایسا ہے کہ جس میں پروفیشنلز کی شدید قلت ہے اور بہتری اور ترقی کے ان گنت مواقع موجود ہیں تو پھر کیا منطقی طور پر ہمیں اس میدان میں بہت زیادہ نوجوانوں کو تربیت نہیں دینا چاہیے؟
سرکار کے پالیسی سازوں سے خیر کوئی امید ہی نہیں، لیکن نہیں معلوم کہ سرکاری اور نجی جامعات بھی مارکیٹ کی اس صورتحال سے نابلد کیوں ہیں۔ کیا مشکل ہے کہ چند سال کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں طلباء کے داخلے معمول سے تین چار گنا کردیے جائیں اور تعلیم کے معیار کو تھوڑی توجہ سے اس قدر بہتر کردیا جائے کہ نوجوان چار سال بعد جب جامع سے تکمیلِ تعلیم کے بعد نکلیں تو وہ مارکیٹ کی تقاضوں کے مطابق بہترین تربیت لیے ہوئے ہوں۔
سوچیں کہ کسی بھی بڑے صنعتی انفرا سٹرکچر اور مہنگی مشینری اور پلانٹس پر قیمتی زر مبادلہ کی انوسٹمنٹ کیے بغیر صرف ذرا سی حکمت اور توجہ سے اپنی آئی ٹی کی برآمدات کو دو ارب ڈالر سے بیس پچیس ارب ڈالر سالانہ تک لیجائیں تو ہمارا سارا تجارتی خسارہ ہی ختم ہو جائے۔ یہ کام نہ تو کوئی بہت احمقانہ سپنا ہے اور نہ کوئی ایسا مشکل کہ جس کے لیے کسی دوسرے ملک سے کسی قسم کی کوئی مدد لینا پڑے۔
وہی کام ہے، جو ہم پہلے سےکررہے ہیں، بس اس کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔۔ کیا کہتے ہیں ممکن ہے نا؟