Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Keto Diet

Keto Diet

کیٹو ڈائیٹ

انسانی جسم کو جتنی بھی توانائی درکار ہوتی ہے وہ خون میں موجود گلوکوز جسے ہم عرف عام میں "بلڈ شوگر" کہتے ہیں کے ذریعہ سے ملتی ہے۔ ہم جتنی بھی کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل خوراک کھاتے ہیں ہمارا نظام انہضام ایک پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد اسے بالآخر گلوکوز میں تبدیل کرکے خون میں شامل کردیتا ہے۔

یہی گلوکوز خون میں شامل ہوکر جسم کے ہر حصہ میں موجود خلیات تک پہنچتا ہے۔ جہاں یہ آکسیجن سے تعامل کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں بہت سی توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہ توانائی ہمیں گرم رکھنے اور دیگر تمام افعال انجام دینے میں کام آتی ہے۔ جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی دوبارہ خون کے ذریعہ سے ہی بالترتیب پھیپھڑوں اور گردوں تک پہنچ کر جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ خون میں ایک وقت میں ایک خاص مقدار سے زیادہ گلوکوز نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ ہماری صحت کیلئے خطرناک ہوجاتا ہے۔ اور اس خاص مقدار کا تعین لبلبہ سے خارج ہونے والا کیمیائی مادہ انسولین کرتا ہے۔ فالتو گلوکوز جسم کے مختلف حصوں میں گلائیکوجن کی شکل میں ذخیرہ ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اپنی خوراک میں کاربوہائیڈریٹس کا استعمال بے حد کم کردیں تو جسم میں میں موجود گلائیکوجن کا ذخیرہ ختم ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف خوراک میں موجود چکنائی ہمارے نظام انہضام میں جانے کے بعد فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوتی ہے۔ یہ فیٹی ایسڈ بھی خون میں شامل ہوکر جسم کے مختلف حصوں میں چربی کی شکل میں ذخیرہ ہوجاتے ہیں۔ جب گلائیکوجن کا ذخیرہ ختم ہوتا ہے تو ہمارا جسم فیٹی ایسڈز کو متبادل توانائی کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ مگر ایسا کرنے کیلئے پہلے ان فیٹی ایسڈ کو جگر میں لیجا کر ان کی آکسیڈیشن کرنا پڑتی ہے جس یہ ایسڈز، کیٹونز میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کیٹونز کو عام طور پر کیٹونز باڈیز بھی کہا جاتا ہے۔

کیٹو ڈائیٹ اسی کیٹونز کا مخفف ہے۔ اس نظام خوراک میں ہم جان بوجھ کر کاربوہائیڈریٹس کا استعمال نہایت کم کرکے جسم میں ایسی کیفیت پیدا کردیتے ہیں کہ کہ اس میں ہر وقت کیٹونز بنتے رہیں اور جسم کی توانائی کی بیشترضروریات اس سے پورا ہوں۔ اس نظام خوراک کے ذریعہ سے وزن بہت تیزی سے کم ہوتا ہے۔

کیٹو ڈائیٹ میں ہم گوشت، مرغی مچھلی، پنیر کم کاربوہائیڈریٹس والی سبزیاں جیسے شملہ مرچ، بروکولی، بندگوبھی، پھول گوبھی، پالک، لہسن، پیاز، کھیرے ٹماٹر۔ پھلوں میں تربوز، آڑو اور سٹرابیریز۔ چکنائی میں مکھن، مونگ پھلی کا مکھن، زیتون اور گری کا تیل۔ خشک میوہ جات میں۔ بادام، اخروٹ، پیکانز، پستہ اور مختلف پھلوں کے بیج جیسے چہار مغز وغیرہ۔کیٹو ڈائیٹ میں روٹی اور آٹے سے بنی دوسری اشیاء جیسے نوڈلز، پاستا، بیکری۔ اس کے علاوہ چاول آلو اور شکر سختی سے منع ہے۔

موٹاپا میں فوری کمی کی وجہ سے کیٹو ڈائیٹ کا چلن بہت تیزی سے رواج پارہا ہے۔ مگر اس کے لمبے عرصے تک استعمال کے نقصانات سے ابھی ہم شاید پوری طرح آگاہ نہیں۔ شاید اس کے متعلق ابھی پوری طرح معلومات بھی مہیا نہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کیٹونز ذہن کے خلیات کو توانائی پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں جب کہ دوسری طرف اس سے بالکل الٹ شواہدات ملے ہیں کہ کیٹو ڈائیٹ الزائمرز کی بیماری میں فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

اسی طرح کچھ ماہرین کے مطابق اس سے گردے میں پتھری، ہڈیوں میں بھربھرا پن اور قبض کا سامنا کرنا پر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ تھکاوٹ، سانسوں میں بدبو اور ڈائریا بھی ہوسکتا ہے۔ جب کہ اس کی نامکمل راہنمائی کے بغیر اس کا استعمال سے غذائی قلت کا بھی امکان ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر موٹاپا سے چھٹکارا کی شدت سے آرزو ہو تو مختصر عرصہ کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسی میری رائے میں شاید کچھ عرصہ بعد ہم اس نظام خوراک کے متعلق زیادہ وثوق سے بات کرسکیں گے۔ تب تک ہم محتاط متوازن غذا پر ہی گذر کرنا چاہیے۔

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry