Fantastic Chaye Ka Jashan
فنٹاسٹک چائے کا جشن
دشمن کی چائے کی پیالی کا شہرہ ہے۔ تاریخ میں یہ دوسری بار ہے کہ دشمن کی چائے خبر بنی ہے۔ جدید دنیا میں چائے کے پھیلاؤ کا باعث بننے کا سہرا پرتگال کی شہزادی کیتھرائن کے سر ہے۔ پرتگال شاہی خاندان اور اشرافیہ میں چائے کا چلن تھا۔ سترویں صدی کے وسط میں میں جب کیتھرائن، چارلز دوم سے بیاہ کر انگلستان آئی تو اسے بھی چائے کی لت لگادی۔ یہ لت شاہی خاندان سے ہوتی پورے انگلستان میں پھیل گئی۔
مشہور زمانہ ایسٹ انڈیا کمپنی بہت جلد دنیا میں چائے کا کاروبار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ یہ اٹھارویں صدی کا وسط ہے۔ جب انگلستان دنیا بھر میں اپنا استعماری قبضہ جمارہا تھا۔ جہاں جہاں انگریز جاتے چائے کی لت بھی ساتھ لے جاتے۔ ایک مغربی ملک میں جہاں انگلستان بزور قابض تھا۔۔ مختلف اشیاء پر ٹیکس عائد کیا گیا، جن میں ایک چائے بھی تھی۔ مقامی لوگوں کے پرتشدد احتجاج پر سب اشیاء سے ٹیکس واپس لے لیا گیا سوائے چائے کے۔
مقامی لوگوں نے نہ صرف انگریزی چائے کا بائیکاٹ کردیا بلکہ ساحل پر کھڑے چائے کے تین جہازوں پر حملہ کرکے پینتالیس ٹن چائے سمندر برد کردی۔ سولہ دسمبر 1763 کو وقوع پذیر ہوا یہ واقعہ تاریخ میں بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے منسوب ہے۔ چائے کا یہ بائیکاٹ اس قدر زبردست تھا کہ لاکھوں کلو چائے۔۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گوداموں میں پڑی خراب ہوگئی۔ بوسٹن ٹی پارٹی اور یہ نقصان اتنا شدید تھا کہ کہ کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب ہوگئی۔ چائے پینے کے عادی لوگوں کا اپنے مفاد کی خاطر دشمن کی چائے کے بائیکاٹ کا یہ تاریخ انسانی کا واحد واقعہ ہے۔ جو ازاں بعد اس ملک کی آزادی پر منتج ہوا۔
بوسٹن ٹی پارٹی فی الحقیقت موجودہ امریکہ کی جنگ آزادی کی بنیاد بنی۔ جارج واشنگٹن کی سربراہی میں لڑی گئی اس لڑائی میں مقامیوں نے انگریزی فوج کو بے دخل کرتے ہوئے آزادی حاصل کرلی۔ اس وقت چائے کے شوق کی قربانی کا حب الوطنی پر مبنی یہ جذبہ ایسی زبردست طاقت کی بنیاد بن گیا جو عملی طور پر آج دنیا پر حکمران ہے۔
دیکھا جائے تو وطن عزیز بھی عرصہ دراز سے حالت جنگ میں ہے۔ ایک عرصہ سے دہشت گردی اور دنیا بھر سے ان دیکھے دشمن سے برسر پیکارہمیں آج سخت ترین معاشی بدحالی کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں ہم سالانہ اربوں روپے کی چائے درآمد کرکے پیتے ہیں۔ حالانکہ عرصہ دراز سے ملک میں چائے کی کاشت کے کامیاب تجربات کیے جا کے ہیں۔
نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کروپ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی 2017 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہم نے 2017 کے پہلے چھ ماہ میں بائیس ارپ روپے کی چائے درآمد کی۔ یعنی چوالیس ارب کی سالانہ چائے درآمد کی جاتی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ضلع مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کا بہت سارقبہ پر بھی چائے کاشت کی جاسکتی ہے۔
جبکہ صرف دولاکھ ایکڑ اراضی پر اگر چائے کاشت کر دی جائے تو ہماری تمام ملکی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ ان علاقوں میں فی الحال اگایا جانے والے آڑو اور جاپانی پھل کثرت پیداوار کی وجہ سے تین سے چھ روپے فی کلو فروخت کرنا پڑتے ہیں۔
چائے کی کاشت میں حائل رکاوٹ اس کا شروع کا تین سے چار سال کا عرصہ ہے۔ جس میں خرچ زیادہ اور آمدن نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر سرکار یا غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کی درست راہنمائی کریں تو بڑے کاشتکار اپنی زمین کے آدھے یا کچھ حصہ پر مناسب منصوبہ بندی سے چائے کاشت کرسکتے ہیں کہ شروع کے چار سال ان کا گھر کا نظام دیگر فصلوں سے چلتا رہے، جبکہ چھوٹے کاشتکاروں کو سرکار تین سال تک پیکیج ڈیل کے ذریعے زرعی قرض دیکر اس کی کاشت پر آمادہ کرسکتی ہے۔
اس سلسلہ میں شہروں سے لوگوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے کہ وہ گاوں کے لوگوں کے ساتھ پارٹنرشپ کرلیں کہ وہ فی ایکڑ چار سال کا خرچ اٹھا لیں اور بعد میں ایک متعین عرصہ تک چائے کی فروخت میں منافع کے حصہ دار بن جائیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قدر محب وطن ہیں کہ 'فنٹاسٹک' چائے کی پیالی کا جشن چائے کی خود کفالت کی صورت میں منائیں۔۔ اور جب تک یہ منزل نہیں آتی چائے پینے سے گریز کریں؟