Syedi O Molai Surkh Posh Bukhari Ke Huzoor
سیدی و مولائی سرخ پوش بخاریؒ کے حضور
رانا صہیب عالم کی قیام گاہ پر رات گئے تک محفل خوب جمی پھر بھی دوسری مختصر قسط میں صبح روانگی سے قبل سوشلزم، پاک بھارت تعلقات، مسئلہ کشمیر جیسے موضوعات پر گفتگو رہی اس بار ہم سامع اور عابد رائو اظہار خیال کررہے تھے۔ میزبان اور احباب سے اجازت لے کر روانہ ہونے لگے تو احمد پور شرقیہ سے برادر عزیز سید محمد علی رضا کاظمی کا فون موصول ہوا۔
انہوں نے آگاہ کیا کہ اوچ شریف میں عزیزم مخدوم سید کامران رضا بخاری۔ جد بزرگوار سیدی و مولائی حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کی خانقاہ پر مسافروں کے منتظر ہیں۔ دوسرا پیغام یہ تھا کہ سرائیکی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور ہمارے مہربان دوست سئیں اکبر انصاری ایڈووکیٹ بھی احمد پور تحصیل کچہری میں واقع اپنے چیمبر میں ہمارے منتظر ہیں اور ان کا حکم ہے کہ پہلے میرے چیمبر میں آئیں پھر شہر کا رخ کریں۔
لیاقت پور میں لالہ اقبال بلوچ اور اظہر گوپانگ سے ملاقات کی خواہش دل میں ہی رہی کیونکہ اوچ شریف میں منتظر عزیزم مخدوم سید کامران رضا بخاری نے 28 صفرالمظفر کے جلوس میں شرکت کے لئے ملتان جانا تھا انہوں نے ہماری آمد سے آگاہی کے بعف ملتان روانگی کے اپنے پروگرام میں کچھ تاخیر کی ہے۔
اوچ شریف سرائیکی وسیب کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ اس کی شہرت کی متعدد دوسری وجوہات بھی ہیں لیکن پچھلے تقریباً 8 سو سال سے برصغیر پاک و ہند بلکہ یوں کہیں ہند و سندھ میں اس کی شہرت اس شہر کا نقوی البخاری اور گیلانی سادات کے بزرگوں کا مسکن ہونا ہے۔
برصغیر پاک و ہند نقوی البخاری سادات کے جد بزرگوار سیدی و مولائی حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کی خانقاہ کے ساتھ یہیں مخدوم سید جہانیاں جہاں گشت بخاریؒ اور نقوی البخاری سادات کے دیگر بزرگوں کی خانقاہیں بھی اسی شہر میں ہیں۔
شہر کے دوسرے حصے میں گیلانی سادات کے بزرگوں کے مزارات ہیں۔
حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ (چند سوانح نگاروں نے ان کا اسم گرامی سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاریؒ بھی تحریر کیا ہے) اپنے شجرہ نسب کے حساب سے 15 واسطوں سے آقائے سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالبؑ کی آل میں سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سیدی سرخ پوش بخاریؒ 5 ذی الحجہ 595 ہجری میں بخارا (ازبکستان) میں پیدا ہوئے۔ علامہ سید فیض عالم نقوی بخاری دکنیؒ اور چند دیگر محققین بخارا کے جائے ولادت ہونے پر اتفاق نہیں کرتے اس عدم اتفاق کی وجہ غالباً یہی ہے کہ ان کے والد بزرگوار حضرت سید علی الموئدؒ بن سید جعفرؒ کے عراق یا مدینہ سے بخارا کی طرف سفر اور قیام کے احوال دستیاب نہیں۔
البتہ سیدی سرخ پوش بخاریؒ کے مدینہ سے بخارا اور پھر وادی سندھ اور وہاں سے اوچ شریف آمد و قیام کے احوال کتب تاریخ اور احوال اولیائے کرام پر شائع کتب میں دستیاب ہیں۔
اسی طرح سیدی سرخ پوش بخاریؒ کے قیام ملتان بارے بھی اختلافی آراء موجود ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ آپ نے ملتان میں 30 برس قیام کیا اور حضرت بہاء الدین زکریاؒ ملتانی کی بیعت کرکے سلسلہ سہروردیہ کے خلیفہ مجاز ہوئے۔
اس رائے کے حاملین دعویدار ہیں کہ سیون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر (سید عثمان علی مروندیؒ) کی خانقاہ کے چار چراغوں کو لعل شہباز قلندرؒ، سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ و حضرت بہاء الدین زکریاؒ ملتانی اور حضرت بابا فرید شکر گنجؒ سے نسبت ہے۔
(یعنی یہ ان چار بزرگوں کی دوستی اور تعلق داری کے چراغ ہیں) چار چراغوں یا حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ سے تعلق کو اگر اسماعیلی روایات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ غلط العام روایت لگتی ہے۔
فی الوقت چونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں اس لئے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ سیدی سرخ پوش بخاریؒ کے کچھ سوانح نگاروں اور برصغیر پاک و ہند یا یوں کہہ لیجئے ہندوسندھ کے مسلمان بزرگوں، اولیاء و صوفیاء کے احوال مرتب کرنے والے مصنفین میں اکثر کا یہ رویہ دیکھائی دیتا ہے کہ وہ فکری اور قلبی طور پر جس بزرگ سے عقیدت رکھتے ہیں سارے زمانے کو اس بزرگ کا مرید باصفا ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔
ان قدیم و جدید مصنفین میں سے سب سے زیادہ ظلم آصف خان نے ڈھایا۔ اولیاء و صوفیائے کرام پر ان کی تحریریں چونکہ ایک معروف جریدے میں شائع ہوتی تھیں اس لئے زیادہ پڑھے جانے کی وجہ سے بعض غلط العام روایات کو بھی پَر لگ گئے۔
مثلاً آصف خان سمیت ان سے قبل کے مصنفین و محققین اور مرتب حضرات نے سیدی سرخ پوش بخاریؒ اور ان کے خانوادے پر تقیہ کرنے کی پھبتی کسی جبکہ سیدی سرخ پوش بخاریؒ کے والد بزرگوار سید علی الموئدؒ بن سید جعفرؒ مکتب امامیہ کی معروف شخصیت تھے۔
اب اگر انہی مقحقین کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ سیدی سرخ پوش بخاری کو عراق سے بخارا پہنچ کر بخارا میں زیادہ دیر تک قیام کرنے کا موقع اس لئے نہیں ملا کہ مذہبی اور فکری (ہماری رائے میں یہاں فکری کی جگہ مسلکی ہونا چاہیے) طور پر یہاں (بخارا) کے حالات ان کے لئے سازگار نہیں تھے۔
اسی لئے دوسری ہجرت لازم ہوئی۔ تو پھر درست تو یہ ہوا کہ انہوں نے تقیہ نہیں کیا اگر تقیہ تھا تو حالات ناسازگار کیوں ہوئے؟
سیدی سرخ پوش بخاریؒ کا سفر حیات کتب تاریخ اور سوانح نگاروں کے مطابق 101سال بنتا ہے لیکن دوسری روایات کے مطابق سیدی سرخ پوش بخاریؒ 595ہجری میں پیدا ہوئے اور 690 ہجری میں رحلت فرماگئے۔ اس روایت کے حسابت سے سفر حیات 95سال بنتا ہے۔
جن مصنفین و محققین نے اور مرتب حضرات نے ان کے قیام ملتان کا عرصہ 30سال بتایا ہے وہ اس حوالے سے ٹھوس معلومات اور حوالہ جات پر صرف اس بات کو ترجیح دیتے دیکھائی دیتے ہیں کہ سیدی سرخ پوش بخاریؒ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرکے سلسلہ سہروردیہ میں داخل ہوئے۔ اکثر تحریر نویسوں نے یہ روایت "تحفتہ الکرام" کے مصنف میر شیر علی قانع مرحوم سے لی ہے، جبکہ عمومی روایات یہی ہیں کہ سیدی سرخ پوش بخاریؒ 625 ہجری میں وادی سندھ تشریف لائے اور اس سے اگلے برس اوچ شریف منتقل ہوئے جہاں اب آپ کی خانقاہ صدیوں سے عقیدت مندوں اور محبین کے لئے مقام زیارت ہے۔
یہ درست ہے کہ اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ خود حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے مرشد شہید شہاب الدینؒ جو سلسلہ سہروردیہ کے بانی قرار دیئے جاتے ہیں اپنی فکر کی بدولت اس وقت کی مذہبی پاپائیت اور حاکمان کے لئے قابل قبول نہیں تھے اسی لئے انہیں شہید کردیا گیا تھا۔ سیدی سرخ پوش بخاریؒ پر تقیہ کی پھبتی کسنے والوں نے اس امر پر غور کی زحمت نہیں کی کہ اگر انہوں نے عقیدے کے حوالے سے تقیہ کرلیا تھا تو پھر بخارا سے ہجرت کیوں کرنا پڑی؟
ایک ہی سانس میں تقیہ اور عمومی طور پر ناقابل قبول فکر (یعنی سواد اعظم سے مختلف عقیدہ) رکھنے کی باتیں عجیب لگتی ہیں۔
وسیب یاترا کے تیسرے دن ہم دو مسافروں (تحریر نویس اور جناب عابد رائو) کا پہلا پڑائو اوچ شریف میں سیدی سرخ پوش بخاریؒ کی خانقاہ تھی جہاں عزیزم مخدوم سید کامران رضا بخاری ہمیشہ کی طرح مہمانوں کے منتظر تھے۔ ان کے ہمراہ جد بزرگوار کی خانقاہ پر حاضری دی اور تربت پر تلاوت کلام پاک کا ہدیہ پیش کیا۔ خانقاہ میں دستار بندی کی سعادت بھی ملی۔
ہمارے ہم سفر عابد رائو صاب کو بھی چادر پہنائی گئی۔ جد بزرگوار کی خانقاہ پر کچھ احوال دل اور حالات بھی بیان کئے۔
سیدی کے علم و مرتبہ سے اولین تعارف پیر سید حسام الدین راشدی مرحوم کے لکھے آپ کے سوانحی خاکے سے ہوا تھا پیر حسام الدین راشدی نے سیدی سرخ پوش بخاریؒ پر لکھے اپنے مضمون میں آپ کا ایک قول بھی درج کیا تھا جو کئی عشروں بعد آج بھی ازبر ہے۔ سیدی فرماتے ہیں"حسد سے بچو یہ سب سے پہلے ظرف کو دیمک کی طرح کھاجاتا ہے"۔
پچھلی چند دہائیوں میں طالب علم کو جب بھی یہ ارشاد یاد آیا نئے معنی کے در وار ہوئے۔
سیدی کی خانقاہ پر حاضری کے بعد دو رکنی قافلہ اوچ شریف سے احمد پور شرقیہ کے لئے روانہ ہوا جہاں ہمارے محترم دوست سئیں اکبر انصاری ایڈووکیٹ کے چیمبر میں دوستوں کے علاوہ مقامی اخبار نویس احباب بھی منتظر تھے۔