Peoples Party Ka Siasi Safar Aur Mustaqbil Ke Taqaze
پیپلزپارٹی کا سیاسی سفر اور مستقبل کے تقاضے
30 نومبر1967ء کو جس دن لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ پر پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا وہ ایوب خان کے اقتدار کا زمانہ تھا۔ سکندر مرزا کی وفاقی کابینہ میں سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کی حثیت سے ذوالفقار علی بھٹو قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہوئے۔ پھر ایوب خان کی کابینہ میں مختلف وزارتوں پر رہے مگر انہیں ملکی اور عالمی سطح پر شہرت وزیرخارجہ کی حثیت سے ملی۔
بھٹو، ایوب خان کی قائم کردہ کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے اور ایوب بمقابلہ محترمہ فاطمہ جناح والے صدارتی انتخابات کے معرکہ میں ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ بھی تھے۔ وہ سندھ کو بمبئی سے الگ کرواکے ایک صوبائی اکائی کے طور پر متحدہ ہندوستان میں شناخت دلوانے کی کامیاب جدوجہد کرنے والے سندھی رہنماؤں میں سے ایک سرشاہنواز بھٹو کے صاحبزادے تھے۔
تاشقند معاہدہ پر اپنی حکومت اور جماعت سے اختلاف کرکے انہوں نے وزارت خارجہ چھوڑی اور عوامی سیاست کا راستہ اپنایا۔ ایوب خان کی حکومت سے الگ ہورہے تھے تو قومی اسمبلی کے دو ارکان رئیس غلام مصطفی جتوئی اور ملک غلام مصطفی کھر نے ان کے فیصلے کی تائید کی بعد ازاں دونوں ان کے سیاسی ساتھی بنے۔
وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد انہوں نے ملک کے طول وعرض میں مختلف الخیال لوگوں سے بات چیت کی اس دوران نیشنل عوامی پارٹی اور کونسل مسلم لیگ کے قائدین محمود الحق عثمانی، سید محمد قصور گردیزی اور میاں ممتاز دولتانہ سے بھی ان کے مذاکرات ہوئے لیکن وہ ان دونوں میں سے کسی جماعت میں شامل نہ ہوسکے البتہ پھر انہوں نے اپنی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔
30 نومبر1967ء کو پاکستان پیپلزپارٹی قائم ہوئی۔ ترقی پسندانہ خیالات کے حامل قوم پرست رہنما کے طورپر انہیں اور ان کی جماعت دونوں کے بے مثال پزیرائی ملی۔ سیاسی طور پر جو گھٹن موجود تھی اس میں پیپلزپارٹی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔
بھٹو پیپلزپارٹی قائم کرکے میدان سیاست میں اترے تو دیکھتے ہی دیکھتے سارے سیاسی منظر پر چھاگئے۔ وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دیتے۔ سامراجی بالادستی سے انکار کرتے اور ترقی پسندانہ افکار کا اظہار کرتے، یہی ان کی مقبولیت کا سبب بھی بنے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور کچلے ہوئے طبقات کو ان کی شکل میں مسیحا دیکھائی دیا اور وہ دیوانہ وار اب راج کرے گی خلق خدا کانعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے گلیوں اور شاہراہوں پر نکل آئے۔
بھٹو بھی جناح صاحب کی طرح ڈھنگ سے اردو نہیں بول سکتے تھے مگر ان کی گلابی اردو نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنالیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ وسیع المطالعہ علاقائی و عالمی سیاست کی نزاکتوں سے آگاہ بھٹو اور ان کی جماعت نے 1970ء کے انتخابات میں طاقت و مصنوعی تقدس کے حامل بڑے بڑے بُت پاش پاش کردیئے۔
1970ء میں ہونے والے انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر ہوئے تھے۔ ان کی جماعت نے مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی میں واضع اکثریت حاصل کی، سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں میں غالب اکثریت البتہ اس وقت کے صوبہ سرحد اب خیبر پختونخوا، اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں بھی سیاسی نمایندگی حاصل کی۔
پیپلزپارٹی نے اپنی سیاست کا میدان مغربی پاکستان کو اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو بنایا اور دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے حصے کے پاکستان سے حق نمائندگی حاصل کیا۔
پیپلزپارٹی اپنے قیام کے دن سے ایک ترقی پسند سامراج دشمن اور عوام دوست جماعت کے طور پر میدان سیاست میں اُتری تھی اس لئے اس وقت کے رجعت پسند طبقات اس کے بدترین مخالف تھے اس مخالفت کا اندازہ یہاں سے لگا لیجئے کہ 1970ء کے انتخابات سے قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کے دو درجن (27) سے زیادہ مفتیوں نے فتویٰ دیا کہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دینا صریحاً کفر ہے۔
فتوؤں اور الزامات کے" گھڑمس"کے باوجود کچلے ہوئے طبقات بھٹواور ان کی جماعت کے دیوانے تھے۔
16 دسمبر 1971ء کے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد انہیں باقی ماندہ پاکستان (جو اس وقت مغربی پاکستان کہلاتا تھا) کا اقتدار ایک فوجی بغاوت کے خطرے کو بھانپ کر منتقل کیا گیا۔ جواں عزم بھٹو اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سیاست کے چودھریوں اور مذہبی پنڈتوں کے دلوں میں کھٹکتے تھے۔ انہوں نے عزم و حوصلہ کے ساتھ تعمیر نو کے سفر کا آغاز کیا۔ 1973ء کا دستور، سٹیل مل، ایٹمی پروگرام، زرعی اصلاحات ان کے کارنامے ہیں، تعلیمی و مالیاتی ادارے اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا۔
عالمی برادری سے مساویانہ تعلقات اور مسلم اُمہ کے اتحاد کے لئے عملی کوششوں کے نتیجے میں لاکھوں پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار کے وسیع مواقع ملے۔
بھٹو سیاسدان تھے۔ ولی کامل یا آسمانی اوتار ہرگز نہیں، خوبیوں اورخامیوں کا غیر جذباتی تجزئیہ کیا جائے تو بہر طور خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے۔
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کچلے ہوئے طبقات کے زمین زاروں کو بالا دست طبقات کے مقابل لا کھڑا کیا۔ 5 جولائی1977ء کو ان کے نامزد کردہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ضیاء کو انہوں نے اردن کے شاہ حسین کی سفارش پر ان سے سینئر جرنیلوں پر فوقیت دیتے ہوئے آرمی چیف بنایا تھا۔ 90 دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ کرنے والے جنرل ضیاء گیارہ سال ایک ماہ اور 12 دن اقتدار پر قابض رہے۔
انہوں نے بھٹو کو قتل کے ایک من گھڑت مقدمہ میں سزائے موت دلوائی یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بھٹو نے جن رجعت پسند طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے کفر و مسلمانی کے ہتھیار ریاست اور ملاؤں کے ہاتھ میں تھمائے وہی ریاست اور ملاں انہیں پھانسی گھاٹ پر لٹکانے میں ایک دوسرے کے پرجوش معاون بنے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد سیاست کے میدان میں ان کی بیگم محترمہ نصرت بھٹو اور صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پر عزم جدوجہد سے پارٹی کو زندہ رکھا۔
ضیائی آمریت کے خلاف بے مثال جدوجہد کی ان کی جماعت کے ہزاروں کارکنوں نے قید و بند کی صوبتیں جھیلیں۔ کوڑے کھائے اور متعد کارکنوں نے تختہ دار پر چڑھنا قبول کیا۔ ان کی صاحبزادی دوبار اس ملک کی وزیراعظم بنیں مگر دونوں بار انہیں"ریاست" نے کشادہ دلی سے قبول نہ کیا۔
وہ دونوں بار سازشوں سازشیوں اور پروپیگنڈے سے مات کھاگئیں۔
27 دسمبر 2007ء کی شام وہ (بے نظیربھٹو) بھی لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر دہشت گردی کا نشانہ بن کر راہی ملک عدم ہوئیں۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی اس کے اقتدار کے یہ پانچ سال کیسے گزرے، مختصراً یہ ہے کہ جنرل کیانی اور نوازشریف کا گٹھ جوڑ تھا تو دوسری طرف "آسمانوں کے فیصلے" کرنے کے زعم کا شکار الیکٹرانک میڈیا، تیسری طرف افتخار چودھری کی سپریم کورٹ۔ اس تگڑم نے تو زرداری اور پیپلزپارٹی کی وفات کی تاریخیں بھی دے دی تھیں۔
2013ء کے انتخابات میں اس جماعت کے سارے ریاستی اور سیاسی دشمنوں کو تحریک طالبان اور لشکر جھنگوئی کا تعاون بھی حاصل تھا۔ پچھلے لگ بھگ پندرہ برسوں میں مفاہمت کی سیاست بنام جمہوریت نے جو صورتحال پیدا کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
چنددن قبل پیپلز پارٹی کوئٹہ میں جشن تاسیس کا اجتماع منعقد کیا۔ یہ پرجوش اجتماع پیپلزپارٹی کی نشاط ثانیہ کا ضامن بن سکتا ہے؟
اس سادہ سے سوال پر پھر کسی وقت بات کریں گے فی الوقت یہ کہ محض ماضی کی قربانیوں کے تذکرے اور وراثت نبھانے کا عزم کافی نہیں۔
پاکستانی سماج کے گلے پڑی انتہا پسندانہ رجعت پسندی کا مقابلہ ایک ترقی پسند خیالات کی حامل قیادت اور پارٹی کرسکتی ہے۔ ملک میں جمہوریت کے تسلسل پر دو آراء نہیں نہ پیپلزپارٹی کی قربانیوں سے انکار ہے لیکن خود پیپلزپارٹی کو اپنے اندر نامزدگیوں کے لئے ملازمت فراہم کرنے والے انٹرویوز کے سلسلے کو ختم کرکے حقیقی جمہوریت متعارف کروانا ہوگی۔
آج کے حالات میں پھر ایک ترقی پسند سامراج دشمن، عوام دوست جماعت کی ضرورت ہے لیکن دوسری جماعتوں کی طرح پیپلزپارٹی پر بھی بالادست طبقات قابض ہیں۔
عوامی جمہوریت کے قیام کے لئے میدان عمل میں اترنے سے قبل پارٹی کے اندر جمہوری کلچر کے فروغ، ترقی پسندانہ افکار کی ترویج بہت ضروری ہے۔
تاریخ و سیاسیات کے اس طالب علم نے کبھی اس ڈھکوسلے کو تسلیم نہیں کیا کہ پیپلزپارٹی ختم ہوگئی ہے۔ پارٹی آج بھی موجود ہے البتہ کیا محض چند تقریریں پھر سے ثابت قدمی کے ساتھ اسے میدان میں کھڑا کرسکتی ہیں؟
اس سوال پر پی پی پی کے قائدین کو غور کرنا ہوگا۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اگر مروجہ سیاست کی محبت کا اسیررہ کر سیاست کرنی ہے تو پھر نون لیگ اور تحریک انصاف اور ان میں کیا فرق ہے؟
نون لیگ سرمایہ داروں، تاجروں اورجاگیرداروں جیسے بالادستوں اور نودولتیوں کی جماعت ہے۔ تحریک انصاف میں بالادست طبقات کے ساتھ پورے سماج کو منہ بھر کے گالی دینے والے سوکالڈ لوئر مڈل کلاسئیے ہیں۔
خود پی پی پی کے پاس بچے کھُچے جیالوں کے علاوہ جو مال ہے وہ بالادست طبقات کا ہے۔
پاکستان اپنے مسائل مسلط کردہ عذابوں اور رجعت پسندوں کی پھیلائی انتہا پسندی کے ساتھ جس مقام پر کھڑا ہے اس مقام سے بہتر سمت اور ماحول میں صرف ایک ترقی پسند عوام دوست جماعت ہی اسے لے جاسکتی ہے۔
اندریں حالات محض بھٹو صاحب کی محبت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے احترام میں پیپلزپارٹی کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی جاسکتی۔
پارٹی کو اپنے بنیادی نظریات سے رجوع کرنے اور انہیں آج کی ضرورت کے مطابق بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ مروجہ سیاست کی نہیں ترقی پسندانہ افکار اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ بلاول طالبانائزیشن کے خلاف واضع موقف رکھتے ہیں لیکن تقاریر کے الفاظ اور عملی جدوجہد کے ساتھ پارٹی منشور میں بھی مطابقت ہونا ضروری ہے۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اگر پارٹی کے اندر جمہوری کلچر کو فروغ دے کر ترقی پسندانہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو پیپلزپارٹی کی ملکی سطح پر نشاط ثانیہ ممکن ہے دوسری صورت میں پارٹی کہیں ہے اور کہیں نہیں والے معاملے ہی ہوں گے۔
(پسِ نوشت): " قند مقرر کے طور پر شائع کی جانے والی یہ تحریر سیاسیات و تاریخ کے طالب کے ذاتی خیالات ہیں ان سے اختلاف کا ناقدین اور خود پیپلزپارٹی کو حق حاصل ہے"۔