Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Istilah Aur Tarjume Ki Kharabian

Istilah Aur Tarjume Ki Kharabian

اصطلاح اور ترجمے کی خرابیاں

کئی سال پہلے ایک بار حج کے موقع پر میں میدانِ عرفات میں وقوف کر رہا تھا۔ اشیائے خورونوش سے لدا ایک بڑا ٹرالر قریب آکر رکا۔ ٹرالر پر بادشاہ کی طرف سے ہدیہ اور ضیافت کا بینر لگا ہوا تھا۔ حاجیوں نے ہجوم کیا۔ ایک نوجوان حاجی حاجن دودھ کے چند پیکٹ لے کر میرے قریب آکر بیٹھ گئے اور مجھے ایک پیکٹ دیا۔ میری نگاہ اُس پہ لکھی انگریزی عبارت پہ پڑی جس میں charity کا لفظ لکھا تھا۔ Charity یعنی بھیک کا ترجمہ "ہدیہ" اور "ضیافت" دیکھ کر شدید متلی ہونے لگی۔ دودھ شکریے کے ساتھ واپس کر دیا۔ میں شاہی مہمان کی حیثیت سے حج کر رہا تھا۔ میں بھکاری نہیں تھا۔

ایسے بے شمار الفاظ ہیں جو اپنے گوناگوں معنی کی قربانی دے کر اصطلاح کے درجے پر اتر آتے ہیں۔ اِن کے معنی سمجھنے میں خرابی در آتی ہے اور مطلب کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ تفہیم کی بیشتر خرابیاں لفظ کے عمومی معنی کے کسی خاص مفہوم کے نیچے دب جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔

مثال لیجیے کہ سود فارسی کا پرانا لفظ ہے۔ یہ سود مند، بے سود، سود و زیاں، سود بٹہ، سود خور، وغیرہ تراکیب میں استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ اب چونکہ اردو والوں میں سود کا لفظ رِبا کے متبادل کے طور پر مشہور ہوچکا ہے، اِس کے فارسی زبان والے معنی عربی کے اِس اصطلاحی معنی کے نیچے آکر کچلے گئے ہیں۔ اب اردو میں سود خور کی ترکیب صرف اور صرف حرام خور کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے حالانکہ اِس کے دیگر مفاہیم میں استعمالات کی لسانی اسناد موجود ہیں۔ سود پر لینا، سود پر دینا، سود چڑھنا، وغیرہ جیسے محاورے جو کسی وقت میں صرف کاروباری معاملوں میں برتے جاتے تھے، اب گناہ کے دائرے میں دھکیلے جا چکے ہیں۔ لوگ کاروبار میں بے جا منافع کو "جرم" کے بجائے "گناہ" سمجھنے کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی جیسے جرائم کے نماز روزے حج عمرے اور خیرات وغیرہ سے معاف ہونے کا ذہن بن گیا ہے۔

بلکہ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فارسی لفظ سود کا یہ اصطلاحی معنی اِس قدر عام ہوچکا ہے کہ وکیپیڈیا میں اِس کا لغوی معنی لکھا ہی نہیں۔ محض اصطلاحی معنی پر طول طویل مضمون البتہ موجود ہے۔

اِسی طرح عربی کا لفظ لحد دیکھیے۔ الحاد، ملحد، وغیرہ، اِسی سے نکلے ہیں۔ لحد راستے سے جڑے ذرا ایک طرف کو بنے گڑھے کو کہتے ہیں جس میں نعش رکھی جاتی ہے۔ ایسا اِس لیے کرتے ہیں کہ نعش کو، یا نعش سے، گزند نہ پہنچے۔ لحد کے یہی مفاہیم الحاد اور ملحد میں ہیں۔ لغوی معنی میں الحاد وہ نقطۂ نظر ہے جو سوادِ اعظم سے منسلک یعنی جڑا ہوا ہے۔ یہ کفر نہیں ہے۔ لیکن اردو کے عام محاورے میں الحاد کو کفر اور ملحد کو کافر سمجھا جاتا ہے۔ یہ اصطلاحی معنی ہیں جنھوں نے اصل معنی کو رگید کر پامال کر دیا ہے۔

اِسی طرح کا ایک لفظ "رد" ہے۔ یہ انگریزی الفاظ discard اور reject سے ملتے جلتے مفاہیم رکھتا ہے۔ تردید، ارتداد، مردود، مرتد، وغیرہ، اِسی لفظ سے نکلے ہیں۔ ایک اور لفظ "منع" ہے۔ ممانعت، ممنوع، مانع، امتناع، وغیرہ، اِسی لفظ سے نکلے ہیں۔ مانع کی جمع مانعین ہے اور امتناعِ قادیانیت آرڈیننس ایک مشہور قانون کا نام ہے۔ اگلی بات ذرا توجہ سے پڑھیے۔ حضرت ابوبکرنے مانعینِ زکوٰۃ کی تلوار سے خبر لی تھی۔ مانعینِ زکوٰۃ وہ لوگ تھے جو زکوٰۃ یعنی ریاستی ٹیکس مرکزی حکومت کو دینے کے بجائے خود جمع کرکے اپنے ہاں کے مستحقین پر خود خرچ کرنا چاہتے تھے۔

یہ لوگ زکوٰۃ کا انکار یا رد نہیں کر رہے تھے۔ اِن کا اختلاف زکوٰۃ کی drawing & disbursement کے دائرۂ اختیار سے تھا نہ کہ شرع کے حکم کا انکار۔ شروع شروع کی تواریخ میں اِن کو "مانعین" ہی لکھا جاتا تھا۔ اب کچھ جگہ پر اِنھیں "منکرینِ زکوٰۃ" اور "مرتد" لکھا دیکھا تو حیرت ہوئی۔ وجہ یہ کہ لغوی معنی میں تو اِس کا مطلب "زکوٰۃ کے ریاستی دائرۂ اختیار کو رد کرنے والا/ کا انکار کرنے والا" ہی ہے لیکن اصطلاحًا مرتد کا مطلب "دینِ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسلام کو چھوڑ دینے والا" لیا جاتا ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ مانعینِ زکوٰۃ صحابہ تھے جنھوں نے اسلام نہیں چھوڑا تھا اور وہ نماز روزہ حج جیسی عبادات مسلمانوں کے ساتھ ہی ادا کرتے تھے۔ اُنھیں مرتد کہنا یا کافر گرداننا کسی صورت درست نہیں ہے۔

مزید واضح کر دوں کہ نماز روزہ حج وغیرہ عبادات چھوڑنے یا اِن میں سستی کرنے پر حکومت جسمانی سزا نہیں دے سکتی۔ نبی کریم سے ایسی کوئی سزا دی جانا منقول نہیں ہے۔ زکوٰۃ وہ ٹیکس تھا جو کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے ضروری ہے۔ یہی محصول ادا نہ کرنے پر حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے پہلے خلیفہ نے تلوار سے خبر لی تھی۔ زکوٰۃ کو صدقہ خیرات بنا دینے کا کام بعد والوں نے کیا ہے۔

القصہ ہمیں الفاظ کے ترجمہ در ترجمہ ہوکر اصطلاحات بن جانے سے پیش آنے والے معانی پہ خاص نگاہ رکھنی چاہیے۔ یہ معنی اکثر وہ نہیں ہوتے جو عام طور پہ نظر آتے اور مشہور ہوجاتے ہیں۔ انگریزی لسانیات کی اصطلاح میں اِن کا مطالعہ folk etymology کے تحت کیا جاتا ہے۔ اِن کے غیر محتاط استعمال سے بہت مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

Check Also

Kab Tak?

By Mumtaz Malik