Hagia Sophia Per Nazriati Behas (1)
آیا صوفیہ پر نظریاتی بحث (1)
چھیاسی برس تک ایک عجائب گھر کے طور پر قائم رکھے جانے کے بعد آیا صوفیہ کو مسجد میں واپس تبدیل کیا گیا۔ جمعہ۲۴ جولائی ۲۰۲۰ کو آیا صوفیہ میں ایک تاریخی نماز جمعہ کا اہتمام ہوا۔ ترکی اور پوری دنیا سے مسلمانوں نے اس میں شرکت کرنے کوکسی اعزاز سے کم نہ سمجھا۔ مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے اس موقع پر بھرپور مسرت کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ اقدام ایک اسلامی جھکاؤ رکھنے والی ترکی کی حکومت اور بالخصوص خود اردگان کی جانب سے کیا گیا، لیکن یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اس اقدام کو مسلمانوں کی جانب سے پذیرائی اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ یہ اقدام اردگان کی جانب سے لیا گیا۔ یہ اس لئے کہ اگر اردگان یا ان کی جماعت کی جگہ کوئی اور حکمران یا حکومت بھی یہ اقدام کرتی تو اسے بھی اتنی ہی پذیرائی ملتی جتنی اب ملی ہے۔ لہٰذا اس پذیرائی کی اصل وجہ مسلمانوں کی اسلام اور اسلام کے تاریخی ورثہ کے ساتھ لگاؤ میں نظر آتی ہے۔
لیکن اس کے برعکس بعض لوگوں کی جانب سے اس اقدام پر سرزنش بھی کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ نے تو محض اس بات پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا سلطان محمد الفاتح کا ۱۴۵۳ء میں آیا صوفیہ کے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا عمل خود اسلام کے بلند اخلاقی معیارکے موافق بھی تھا یا نہیں۔ جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ الفاتح کے اس عمل کو ایک انتہائی ظالمانہ اقدام قرار دیا گیا ہے، اور ایک ایسا اقدام جو دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی ساکھ اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کوئی اچھی نوید لے کر آتا نظر نہیں آتا۔
آیا صوفیہ کو بازنطینی بادشاہ جسٹنین نے ۵۳۷ء میں ایک چرچ کے طور پر تعمیر کرایا تھا۔ ۱۴۵۳ء میں جب مسلمانوں نے بازنطینی سلطنت کے دار الحکومت قسطنطنیہ کو فتح کر کے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا تو اس وقت یہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا چرچ تھا۔ جنگ عظیم دوئم کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ جب مصطفیٰ کمال اتاترک نے ایک خود مختار ترک ریاست قائم کی تو اس ریاست کو لبرل طرز پر استوار کرنے کے لئے بہت سے اقدامات میں سے ایک اقدام یہ بھی کیا کہ ۱۹۳۱ء میں آ یا صوفیہ کو بند کر کے اس میں نماز اداء کرنے پر پابندی عائد کر دی اور پھر ۱۹۳۵ء میں اسے عجائب گھر کی حیثیت سے کھول دیا گیا۔
جہاں تک مسلمانوں میں سے اس گروہ کا تعلق ہے جس نے سلطان محمد الفاتح کے چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے اس اقدام کو ایک ظالمانہ قدم قرار دیا ہے تو انہوں نے اپنی تحریروں کی بنیاد مغربی مستشرقین کی جانب سے فتح قسطنطنیہ کے اس واقع سے متعلق لکھی گئی تاریخ کو بنایا ہے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی مستشرقین نے اسلام اور مسلمانوں کے غلبے سے متعلق واقعات میں بہت جانب داری سے کام لیا ہے۔ اس کی وجہ وہ مذہبی تعصب ہے جو ان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی صلیبی جنگوں کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اس بات کا اعتراف خود بعض مغربی مستشرقین نے اپنی تحریروں میں کیا ہے۔
فرانس کے نوبل خاندان "لا کروئی" سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور سکالر، کاؤنٹ ہنری میری ڈِی کاسٹریز (۱۸۵۰ تا ۱۹۲۷ء) اپنی فرانسیسی کتاب "اسلام" جو۱۸۹۶ء میں شائع ہوئی، میں لکھتے ہیں: "میں نہیں جانتا کہ اگر مسلمانوں کو قرون ِ وسطیٰ کے ہمارے لکھے ہوئے قصوں کا علم ہوجائے اور وہ ہمارے عیسائی مقرروں کے اقوال اور اُن کی نظموں کو سنیں تو وہ کیا سوچیں گے؟ کیونکہ ہماری تمام نظمیں اورکہانیاں جن میں سے کچھ بارہویں صدی سے پہلے بھی لکھی گئیں وہ سب کی سب ایک ہی فکر کی پیدا وار ہیں اور یہی فکر صلیبی جنگوں کا سبب بنی۔ یہ تمام نظمیں بس مسلمانوں کی نفرت سے بھری ہوئی تھیں جو اُن کے دین کے بارے میں ہماری مکمل جہالت کی بناء پر تھی۔ اِن نظموں کے باعث اُن کے مذہب کی غلط تصویر اوران کے مذہب کے خلاف نفرت ہمارے ذہنوں میں بیٹھ گئی اور اس کا کچھ حصہ آج بھی ہمارے ذہنوں میں راسخ ہے۔ ہر ایک مستشرق مسلمانوں کو مشرک، کافر، بتوں کا پجاری اور بے دین سمجھتا تھا"۔
اس طرح قرون ِ وسطیٰ میں یورپ کے پادری، مسلمانوں اور اُن کے دین کی ایسی ہولناک اور ڈراؤنی منظر کشی کیا کرتے تھے کہ عوام کے دل مسلمانوں کے خلاف سخت بغض اور نفرت سے بھر جائیں اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی صلیبی جنگوں کے اندر زیادہ سے زیادہ تعداد میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ کئی صدیوں پر محیط جب صلیبی جنگیں ختم ہوئیں تو مسلمانوں نے پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں قسطنطنیہ فتح کرلیااور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی نفرت پھر سے جاگ اٹھی۔ پھر سولہویں صدی عیسوی میں اسلامی ریاست نے یورپ کے جنوبی اورمشرقی علاقوں کو کھولا اور اسلام کووہاں تک پہنچایا۔ چنانچہ البانیہ، یوگوسلاویہ اور بلغاریہ وغیرہ میں لاکھوں لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوئے۔ مسلمانوں کی یورپ میں بڑھتی ہوئی اور بظاہر نہ رکنے والی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد ۱۹۱۷ء میں برطانیہ کا جنرل ایلن بی جب فتح یاب ہو کر بیت المقدس میں داخل ہوا تو اُس نے کہا: "صلیبی جنگوں کا اختتام تودراصل آج ہوا ہے"۔ اس فتح پر برطانوی پریس نے اپنے جریدوں میں قدیم برطانوی بادشاہ رچرڈ اول کو بادلوں سے نیچے کی طرف رخ کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے دکھایا کہ:" آخری صلیبی جنگ! میرا خواب سچ ثابت ہوا"۔ رچرڈ اول (۱۱۸۹ء) وہ برطانوی بادشاہ تھا جس نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کی تھیں جس وجہ سے صلیبی اسے "رچرڈ، دا لائین ہارٹ" یعنی شیر دل کا لقب دیتے تھے لیکن باوجود اس کے وہ صلاح الدین ایوبی (۱۱۹۳ء) کے خلاف جنگوں میں فلسطین کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ لہٰذا ۱۹۱۷ء میں جنرل ایلن بی کے فلسطین کو فتح کرنے کو صلیبی جنگوں کا ہی ایک تسلسل قرار دیتے ہوئے رچرڈ اول کے ساتھ جوڑا گیا۔
مغرب کے اسی تعصب کے حوالے سےمزید تفصیل سے مشہور مستشرق پروفیسر لیوپولڈ ویس (محمد اسد) اپنی کتاب "اسلام دوراہے پر" میں لکھتےہیں: "یورپ کا نشاۃ ثانیہ یا یورپ میں سائنس اور فنون کا احیاء، اسلامی اور عرب مصادر کا مرہونِ منت ہے اور جو مشرق اور مغرب کے درمیان مادی رابطوں کی بنا پر ممکن ہوا۔ یورپ نے اسلامی دنیا سے بہت استفادہ حاصل کیا ہے لیکن اس نے مسلمانوں کی اس معاونت کو نہ کبھی تسلیم کیا اور نہ ہی وہ اس کے شکرگزار رہے، جبکہ مسلمانوں سے اپنی نفرت کی شدت میں کمی کرکے یورپی ایسا کرسکتے تھے۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا اوراِن کی نفرت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی اور بعض اوقات بے قابو ہوگئی۔ اس عنادنے عوام کے جذبات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فقط مسلم، نام لینے ہی سے یہ عنادسلگ اُٹھتا تھا۔ یہ عناد لوگوں کی وراثت کا حصہ بن گیا اور ہر مرد اور عورت کے سینوں کی گہرائیوں میں اُتر گیا، مزید حیرت اس بات پر ہے کہ ثقافتی ارتقاء کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد بھی یورپ میں یہ نفرت زندہ رہی۔ اس کے بعد مذہبی اصلاحات کا دور آیا اور یورپ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، ہر فرقہ دوسرے کے خلاف ہمیشہ پوری طرح مسلح اور لڑائی کیلئے مستعدرہتا، لیکن اِن دونوں فرقوں میں مسلمانوں سے عناد پھر بھی مشترک رہا۔ پھر وہ دور آیا جس میں مذہبی جوش ٹھنڈے پڑ گئے لیکن یہ نفرت پھر بھی قائم رہی، اس کی بہترین مثال فرانس کے فلسفی اور مورخ والٹیئر(۱۷۷۸ء) سے ملتی ہے جو اٹھارہویں صدی میں چرچ اور عیسائیت کا دشمن ماناجاتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اسلام اور نبی اسلام ﷺ سے بغض ونفرت کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اس کے کچھ دہائیوں بعدایسا وقت آیا کہ مغربی دانشوروں نے بیرونی تہذیبوں کا مطالعہ کیا اور قدرے کھلے ذہن سے بعض تہذیبوں سے ہمدردانہ رویہ اختیار کیا، لیکن جب بات اسلام کی آتی تو اُن کی روایتی نفرتیں دانشوروں کی اس علمی کاوش پر بھی متعصبانہ طور پر اثر انداز ہو جاتیں اور تاریخ نے جو ایک اونچی دیوار یورپ اور اسلام کے مابین کھڑی کر رکھی تھی اُس کا تدارک نہ ہوپایا اوراسلام سے نفرت یورپی ذہنیت کا لازمی حصہ بن گئی"۔
جاری۔۔