Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Faria Gul/
  4. Seekhne Ka Amal

Seekhne Ka Amal

سیکھنے کا عمل

حدیث نبوی ﷺ ہے۔ "پنگھوڑے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو"۔

پہلے روز جب اولاد آدمؑ نے اپنی آنکھ کھولی تو اسی روز اس کے سیکھنے کا آغاز ہو چکا تھا۔ ماں کی گود وه پہلی درسگاہ ہے جہاں بچہ وہی سیکھتا ہے جو اس کی ماں اسے سیکھاتی ہے۔

نیپولین بونا پارٹ نے کہا تھا۔ "تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں بہتریں قوم دونگا"۔

بچے کی تعلیم و تربیت سے لے کر جسمانی و ذہنی نشونما میں ماں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اپنے جسمانی اعضاء کو حرکت دینا، بولنا، اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، یہ ساری حرکات و سکنات جو اس میں وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں وہ سب بچہ اپنے اردگرد کے ماحول، معاشرتی روابط، ذہنی و جسمانی ہم آہنگی سے، خود سے منسلک رشتوں سے، مشاہدات کے ذریعے، (یعنی دیکھ کر) یا پھر ماڈلنگ (یعنی عمل جیسا دوسروں کو کرتے دیکھتا ہے ویسا ہی کردار ادا کرتا ہے) سیکھتا ہے۔ یہ وہ تمام عوامل ہیں جو بچے کو سیکھنے کے مراحل میں مدد کرتے ہیں۔

الغرض ہمارے سونے سے لے کر جاگنے تک جتنی بھی سرگرمیاں ہوتیں ہیں ان کا دارومدار سیکھنے پر ہوتا ہے۔

سیکھنا کیا ہے، اور یہ کیوں ضروری ہے؟

.Learning is the modification of human behavior through experiences

"سیکھنا ایسا عمل ہے جس سے انسان کے روئیے، کردار اور تجربات میں تبدیلیاں رونماں ہو رہی ہوتی ہیں۔ "

انسان اس دنیا میں رہنے کے لئے اور اپنے ماحول سے مشروط یا ہم آہنگ ہونے کے لیے مختلف روئیے اور کردار سیکھتا ہے، کسی بھی صورت حال کو کیسے سنبھالنا ہے، مشکلات کو کیسے حل کرنا ہے، روزمرہ زندگی میں اپنے کام کیسے سرانجام دینے ہیں؟ ان تمام مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب انسان خود کو سیکھنے کے مراحل سے گزارے۔ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ لوہا آگ کی بھٹی میں جلنے سے ہی کندن بنتا ہے۔ انسان بھی خود کو سیکھنے کے مراحل سے گزار کر ہی اشرف المخلوقات کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "ہم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا۔ "

یعنی تمام مخلوقات سے عظیم مخلوق بنایا گیا انسان کو، تاکہ وہ اپنی فہم و فراست کو بروئے کار لا کر اس دنیا کو تسخیر کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان اس علم تک رسائی حاصل کر لے جو علم حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے سیکھایا اور فرشتوں پر انسان کو فضیلت بخشی۔

معاشرے میں رہتے ہوئے انسان دو طریقوں سے سیکھتا ہے، رسمی اور غیر رسمی طریقہ۔

رسمی طریقہ کار میں انسان باقاعدہ کسی ادارے میں ایک منصوبے کے تحت سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب بچہ تین سال کا ہوتا ہے تو اس کا داخلہ کسی اسکول میں کروایا جاتا ہے، تاکہ وہ باقاعدہ اخلاقی و ذہنی تعلیم حاصل کر سکے۔ دوست بنانا سیکھ سکے۔ دوسروں سے بات چیت کرنے کا طریقہ کار اور تعلقات بنانا سیکھ سکے۔ بالکل اسی طرح غیر رسمی طریقہ کار میں بچہ لوگوں سے معاشی تعلقات بناتا ہے، اپنے گھر سے، آس پاس کے ماحول سے، مشاہدات کے ذریعے اپنے اردگرد سے نئی مہارتیں، علم، اخلاقی اقدار، رہن سہن کے طریقے تہذیب و تمدن سب سیکھتا ہے۔

آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا جب پانی ایک جگہ کھڑا رہتا ہے تو اس کا بہاؤ رک جاتا ہے پھر اس میں بدبو اور کیڑے مکوڑے پیدا ہو جاتے ہیں، بالکل اسی طرح اگر انسان کی زندگی میں سیکھنے کا عمل رک جاۓ تو اس کی زندگی بھی اس ٹھہرے ہوۓ پانی کی مانند ہو جاۓ گی۔ اس کا ذہن کاٹھ کباڑ میں پڑے ہوئے اس سامان کی مانند ہو گا جسے گھر کے ایک سٹور روم میں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔

اگر پانی متحرک رہے اور بہتا رہے وہ قابل استعمال ہو گا۔ اگر انسان کی زندگی بھی متحرک رہے اور اپنی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرے تو وہ پانی کے اس بہاؤ کی طرح آگے بڑھتا رہےگا، تو پانی کے بہاؤ کی مانند نہر سے دریا، دریا سے سمندر کی طرح وسیع ہوتا جائے گا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہےگا۔ ایک مشہور کہاوت ہے۔

"حرکت میں برکت ہیں۔ "

یعنی آپ کو کوئی بھی چیز تھالی میں سجا کر پیش نہیں کی جائے گی۔ اگر آپ کو بھوک لگی ہے تو آپ اس بات کا انتظار نہیں کریں گے کہ کھانا خود چل کر آپ کے پاس آئے بلکہ اس کے لئے آپ کو خود اٹھنا پڑے گا، کچن میں جا کر اپنے لئے کھانا بنانا پڑےگا۔ جب انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے اور منزل پہ پہنچنے کی جستجو کرتا ہے تو وہ آسماں کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اور ویسے بھی پیاسا پانی کے پاس جاتا ہے نہ کہ پانی پیاسے کے پاس۔ بالکل اسی طرح علم حاصل کرنے کے لیے علم کی پیاس کا ہونا ضروری ہے۔

حدیث نبوی ﷺ ہے۔ "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ "

اللہ تعالیٰ نے بھی اس کائنات کو تسخیر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ کہتا ہے گھومو پھرو دیکھو میں نے کون سی نعمتیں تمہیں عطا کیں ہیں۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اور تم میری کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ "

اللہ تعالیٰ کن نعمتوں کا ذکر کر رہا ہے۔ اس بات کا علم انسان کو تب معلوم ہو گا جب وہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گا جو اللہ نے اسے عطا کیں ہیں۔ اگر انسان خود کو دیکھے تو وہ مکمل طور پر ایک نعمت ہی ہے۔ اس کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، چکھنے کے لیے زبان، چلنے کے لیے پاؤں الغرض اللہ نے اسے ہر طرح کی نعمت سے مالا مال کیا ہے۔ اگر ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں گے تو ہماری مثال اس کنویں کے مینڈک کی طرح ہی ہو جائے گی جو اپنی ساری زندگی اس کنویں کے اردگرد چکر لگاتے ہی گزار دیتا ہے۔ ہمیں اس کنویں کے مینڈک کی طرح نہیں بننا ہمیں کھوجی بننا ہے۔

کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ کیسے ہو رہا ہے؟

ہمیں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہیں۔ اور یہ سب تب ہی ممکن ہو گا جب ہم غور و فکر کریں۔ جب اپنی عقل کی بتی کو جلائیں گے۔ نیوٹن نے بھی صرف سیب کے زمین پر گرنے سے کشش ثقل کا قانون دریافت کر لیا۔ اس نے غور و فکر کیا کہ یہ سیب کیسے زمین پر گرا اور کون سی ایسی قوت ہے جو اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے؟ یعنی غور و فکر اور اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرنے سے ہم اپنے مقصد کو جان سکتے ہیں۔

Check Also

Safar Sarab

By Rehmat Aziz Khan